کتاب: محدث شمارہ 289 - صفحہ 20
ایک استثنائی واقعہ ہے یا اس میں عموم ہے؟
ظاہر بات ہے کہ یہ ایک استثنائی صورت ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی حضرت اُمّ ورقہ کے علاوہ کسی اور عورت کو اپنے محلے یا اپنے گھر میں اذان کے ساتھ نماز پڑھانے کا حکم نہیں دیا گیا؟ اسی طرح عہد ِ صحابہ و تابعین سے لے کر آج تک اُمت ِ مسلمہ میں اس کا کہیں اہتمام نہیں کیا گیا۔ اس لئے اس استثنائی واقعے کی بنیاد پر مغرب کے نظریہٴ مساواتِ مرد وزن کو ثابت کرنے کا اور اسے’آزادئ نسواں ‘ کی تحریک کا پیش خیمہ بنانے کا جواز کیا ہے؟ اور کیا اس سے واقعی مغرب کے نظریہٴ مساوات کا یا آزادئ نسواں کا اثبات ہوتا ہے؟ جن مردوں اور عورتوں نے یا اس کے پس پردہ ہدایت کاروں نے یہ کھڑاک رچایا ہے، ان کا مقصد تو اس امامت ِزن سے نظریہٴ مساوات مردوزن یا تحریک ِآزادئ نسواں ہی کا اثبات ہے۔ اسی لئے اس واقعے میں
”اُنہیں ریاستی طاقت کی آشیرداد حاصل تھی۔اس چرچ کے، جہاں یہ نماز ادا کی گئی، چاروں اطراف امریکی پولیس پھرے دار بن کر کھڑی رہی۔“
(روزنامہ پاکستان میگزین، ہفت روزہ ’زندگی‘ ص 3،27 /مارچ 2005ء )
اس سے واضح ہے کہ اس سازش کو استعمار کی حمایت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں اس میں جس قسم کے لوگ پیش پیش تھے، اس کی تفصیل بھی عائشہ سروری نامی ایک خاتون کے ذریعے سے سنئے۔اس خاتون نے امریکہ جاکر اور براہ راست اصل لو گوں سے مل کر یہ تفصیل بیان کی ہے۔یہ خاتون لکھتی ہے:
”اسریٰ نعمانی امریکی شہری اور طلاق یافتہ ہے اور دو بیسٹ سیلر کتابوں کی مصنفہ بھی۔ اسریٰ نعمانی مورگن ٹاوٴن اور ورجینیا میں مقیم مسلمانوں کے نزدیک اس لئے زیادہ ناپسندیدہ ہے کہ ایک تو وہ مسلمان عورتوں کے حقوق کی متشدد حامی ہے اور دوسرا یہ کہ اس نے طلاق کے چند سال بعدایک بیٹے کو بغیر نکاح کے جنم دیا … اسریٰ نعمانی نے ڈاکٹر امینہ ودود سے مل کر مسجدوں میں مردوں کے برابر حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد کا آغاز کیا جس سے مقامی مسلمانوں میں بہت شدید رنج اور ناراضگی کی لہر دوڑ گئی … نمازِ جمعہ کی امامت کرانے میں اسریٰ نعمانی اور ڈاکٹر امینہ ودود نے اکٹھے مل کر جدوجہدکی ہے۔ امریکی قوانین اُنہیں اس سمت میں آگے بڑھنے میں بھرپور مدد فراہم