کتاب: محدث شمارہ 289 - صفحہ 19
کے رسول کو بھی حاصل نہیں ۔ دوسری طرف دیکھئے! قرآن عورتوں کی بابت کہتا ہے: ﴿وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ﴾ (الاحزاب:23،33)”تم اپنے گھروں میں ٹک کر رہو“ یعنی بغیر ضروری حاجت کے گھر سے باہر نہ نکلو۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عورت کا دائرۂ عمل اُمورِ سیاست و جہاں بانی نہیں ، معاشی جھمیلے نہیں ، امامت و خطابت کے فرائض ادا کرنے نہیں ، بلکہ گھر کی چاردیواری کے اندر رہ کر امورِ خانہ داری سرانجام دینا ہے۔ لیکن یہاں یہ گروہ حضرت اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے، جس کی صحت بھی متفق علیہ نہیں ، قرآنی حکم کے برعکس عورت کی امامت و خطابت کا اثبات کررہا ہے۔ رجم کی متواتر اور متفق علیہ روایات کے ماننے سے ان کے نزدیک قرآن کی برتری مجروح ہوتی ہے، لیکن ایک مختلف فیہ روایت کی بنیاد پر حکم قرآنی سے انحراف سے شاید اس لئے قرآن کی برتری مجروح نہیں ہوتی کہ اس انحراف سے بے توفیق فقیہانِ ’اشراق‘ یا استعمار کے مقاصد کی آبیاری ہوتی ہے۔ حضرت اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اور اس سے استدلال کی حقیقت بہرحال ان چند مثالوں سے مقصود اس ’عدل و انصاف‘ کی وضاحت اور اس تضاد کی نشاندہی کرنا ہے جس کا مظاہرہ مذکورہ منحرفین کاگروہ کررہا ہے اور اس ’علم و تحقیق‘ کو آشکارا کرنا ہے جس پر یہ مدعیانِ علم و تحقیق فخر کا اظہار کرتا ہے۔ ورنہ قرآن و حدیث کا دلی احترام صحیح معنوں میں موجود ہو اور مسلماتِ اسلامیہ سے گریز و انحراف بھی ناپسندیدہ ہو تو پھر زیر بحث واقعہ امامت ِ زن کی ناپسندیدگی اور اس کے اسلامی تعلیمات کے یکسر خلاف ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا۔اس نکتے کی وضاحت کے لئے چند باتیں پیش خدمت ہیں : (1) حضرت اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث میں ، جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نماز پڑھانے کی اجازت دی اور ان کے لئے ایک موٴذن بھی مقرر فرمایا، کئی اُمور قابل غور ہیں : اوّل تو اس حدیث کی صحت متفق علیہ نہیں ، محققین حدیث کی اکثریت نے اس کو ضعیف قرار دیاہے، تاہم بعض نے اسے ’حسن‘ تسلیم کیا ہے۔ ہم فی الحال اس کی اسنادی تحقیق سے گریز کرتے ہوئے اور اس کو حسن درجے کی روایت تسلیم کرتے ہوئے یہ عرض کریں گے کہ یہ