کتاب: محدث شمارہ 289 - صفحہ 18
بے مثال ’انصاف‘ اور ’ تحقیق ‘ کی دوسری مثال
دوسری مثال اس گروہ کے عدل و انصاف اور تحقیق کی یہ ہے کہ حد ِ رجم، جومتواتر احادیث سے بھی ثابت ہے اور اجماعِ اُمت سے بھی اور اس ’عملی تواتر اُمت‘ سے بھی جسے یہ گروہ ’سنت‘ سے تعبیر کرتا ہے، یعنی ان کے اپنے بنائے ہوئے پیمانے اور معیار سے بھی یہ حد ِرجم ثابت ہوتی ہے، لیکن اسے یہ نَكال اور تعزیرکے طور پر تو مانتا ہے ، البتہ اسے حد ِ شرعی ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ مگر دوسری طرف ایک ضعیف یا کم از کم ایک مختلف فیہ روایت کو بنیاد بنا کر عورتوں کی امامت کے فتنے کو جائز قرار دینے کی مذموم سعی کررہا ہے، علاوہ ازیں اس روایت میں ایسے کوئی واضح الفاظ بھی نہیں ہیں جن سے یہ معلوم ہو کہ حضرت اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کے پیچھے نماز پڑھنے والے مقتدی مرد بھی ہوتے تھے، جیسا کہ آگے ہم ان شاء اللہ وضاحت کریں گے۔ جبکہ رجم کی روایات اس امر میں واضح ہیں کہ جن کو بھی رجم کی سزادی گئی، وہ شادی شدہ تھے اور شادی شدہ ہونے کے باوجود ارتکابِ زنا کرنے ہی پر ان کو رجم کی سزا دی گئی تھی، لیکن یہ گروہ اس روزِ روشن سے زیادہ واضح حقیقت کا منکر ہے اور کہتا ہے کہ زنا کی سزا صرف ایک ہی ہے اور وہ سو کوڑے ہیں ، زانی کنوارا ہو یا شادی شدہ۔
تیسری مثال
قرآنِ کریم میں ہے:
﴿الزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ﴾ (سورۃ النور )
”زانی مرد اور زانی عورت، ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو…“
قرآن کا یہ حکم عام ہے جس میں ہر قسم کے زانی شامل ہیں ۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور فرمان سے قرآن کے اس عموم کی تخصیص ہوگئی اور یہ بات مسلّم ہوگئی کہ قرآن کی بیان کردہ زنا کی سزا اُن زانیوں کے لئے ہے جو کنوارے ہوں ، اور شادی شدہ زانیوں کی سزا رجم ہے جو حدیث سے ثابت ہے، پوری اُمت نے حدیث ِ رسول سے قرآن کے اس عموم کی تخصیص کو تسلیم کیا اور اس پر اُمت کااجماع ہوگیا۔ لیکن یہ گروہ کہتا ہے کہ یہ تو قرآن کی توہین ہے۔ قرآن کا عموم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل یا فرمان سے خاص نہیں ہوسکتا۔ وہ اس عمل ِرسول اور حدیث ِرسولکو نعوذ باللہ قرآن پر زیادتی یا قرآن کا نسخ قرار دیتا اور کہتا ہے کہ یہ اختیار اللہ