کتاب: محدث شمارہ 289 - صفحہ 16
شیریں یا اس زہر ہلاہل کو آب ِ حیات بنا کر پیش کرتا ہے۔ ٭ چنانچہ دیکھ لیجئے! مغربی استعمار اسلامی سزاوٴں کو (نعوذ باللہ) وحشیانہ سمجھتا اور قرار دیتا ہے، تو اس گروہ نے بھی حد ِرجم کا انکار کردیا، جب کہ یہ حد متواتر احادیث سے ثابت ہے اور اُمت ِ مسلمہ کا اس پر اجماع ہے۔ لیکن یہ گروہ اس کے اسلامی حد ہونے کا انکار کرتا ہے اور اس پر دادِ تحقیق دیتا اور بہ زعم خویش ’دلائل‘ کا انبار لگاتا ہے۔ یہ استعمار کی ایک خدمت ہے جو یہ گروہ علم و تحقیق کے نام پراور مذہب کا لبادہ اوڑھ کر سرانجام دے رہا ہے۔ ٭ ناچ گانا اور موسیقی مغربی تہذیب کی روح اوراس کی غذا ہے۔ یہ گروہ ان بے حیائیوں کو بھی نہ صرف سند ِ جواز مہیا کررہا ہے ، بلکہ ان کوتاہ آستینوں کی دراز دستی کا یہ عالم ہے کہ اُنہوں نے پیکر ِحیا نبی آخر الزماں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی… جنہوں نے اپنے مقاصد ِ بعثت میں ایک مقصد معازف و مزامیر (گانے بجانے کے آلات) کا مٹانا بھی بتایا ہے… مغنّیات کے گانا سننے کا الزام عائد کردیا ہے۔ (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ) ٭ تصویر سازی بھی مغرب کی اخلاق سوز، ایمان شکن اور حیا باختہ تہذیب کا بنیادی ستون ہے۔ اس گروہ نے بہ زعم خویش اس حرام کو بھی ’ماشاء اللہ چشم بددور‘ اپنے زورِ قلم اور استدلال کی فن کاریوں سے حلال کردکھایا ہے۔ ع ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند! ٭ انگریزکے خود کاشتہ پودے مرزا غلام احمد قادیانی علیہ ما علیہ کو اپنی جعلی نبوت کے اثبات کے لئے ضرورت تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزولِ آسمانی کا انکار کیا جائے۔ اس گروہ ’اشراق‘نے بھی مرزا قادیانی کی ہم نوائی کرتے ہوئے اس متواتر عقیدہٴ نزولِ مسیح کا انکار کرکے عالمی استعمار کی کھڑی کردہ جعلی نبوت کی عمارت کو سہارا دیا۔ ٭ ایک عورت کا مردوزَن کے مخلوط اجتماع میں ، امامت کے فرائض ادا کرنا بھی ایک فتنہ اور اسلام کے صریح احکام سے انحراف کا شاخسانہ ہے۔اس گروہ نے اس کی بھی تحسین کی اور مئی 2005ء کے ماہنامہ ’اشراق‘ لاہور میں اس انحراف و بغاوت کے جواز کے دلائل بھی مہیا فرما دیے گئے ہیں نظر لگے نہ کہیں اُس کے دست و بازو کو یہ لوگ کیوں مرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں