کتاب: محدث شمارہ 289 - صفحہ 14
عورت کی امامت کا ایک ظریفانہ نقشہ
بھلا تصور تو کیجئے اس معاشرہ کا جہاں عورت مردوں کی امام ہو، معلوم ہوا کہ مقتدیوں کی بھیڑ مسجد میں صرف اس وجہ سے ہورہی ہے کہ’ملکہ حسن‘ ان کی امامت کررہی ہے اور تمام مقتدی اللہ کے حضور میں اللہ کی رضا کے حصول کے لئے نہیں بلکہ اپنی دیدہ زیب ’امامہ صاحبہ‘ کی دل فریب مسکراہٹ اور مترنم ’السلام علیکم ورحمتہ اللہ‘ سننے کے لئے بے تاب کھڑے ہیں ۔ نماز سے فراغت کے بعد امامہ صا حبہ کوپانے کے لئے ہاتھ بارگاہ الٰہی میں اُٹھے ہوئے ہیں کچھ بیٹھے اپنی امامہ صاحبہ پر دلچسپ پھبتیاں کس رہے ہیں ، امامت کا تقدس مجروح ہورہا ہے، ’نماز‘ کیا؟ خواتین کے مشاعرہ سے بھی بدتر ماحول ہے جس میں کسی کے سلام کی داد دی جارہی ہے تو کسی کے اندازِ نماز کی۔
اور پھر یہ تصویر بھی ملاحظہ کیجئے، فجر میں امامہ صا حبہ نے خوش الحانی کے ساتھ تلاوت فرمائی معلوم ہوا کہ ظہر سے چھ دنوں کے لئے سلسلہ بند۔ ہر مہینے چھ دن کی نمازوں میں مقتدی بغیر امامہ صا حبہ کے نماز ادا کررہے ہیں ، سال دو سال میں معلوم ہوا کہ یہ سلسلہ چالیس دن تک کے لئے منقطع ہوگیا، چالیس دن بعد امامہ صا حبہ تشریف لائیں تو گود میں ایک خوبصورت منے میاں ہم ہما رہے ہیں ۔ امامہ صا حبہ نے فجر کی نیت باندھی، ابھی الحمدللہ شروع ہی کی تھی کہ بچے نے رونا شروع کردیا، کسی نہ کسی طرح الحمد پوری کی تو بچے نے سپیڈ پکڑی، امامہ صاحبہ نے عم يتساء لون کی جگہ قل ہو اللہ سے کام چلا کر اُٹھک بیٹھک کرائی اور سلام پھیرتے ہی بچے کو سینے سے لپٹا کر اس کے پیٹ بھرنے کا انتظام کیا۔ مقتدی سبحان اللہ ، الحمدللہ ، اللہ اکبر ، نہ جانے امامہ صا حبہ کے اس عمل پر پڑھ رہے یا فجر کے بعد کے معمول کے مطابق پڑھی جانے والی تسبیح کا ورد کررہے ہیں ، کیا اس طریقہ کی نماز میں کسی تقدس کا ادنیٰ بھی امکان ہوسکتا ہے؟
شریعت ِاسلامیہ نے عورتوں کی جسمانی و روحانی نزاکتوں کے پیش نظر اُنہیں نماز جیسی اہم عبادت جماعت کے ساتھ پڑھنا لازمی قرار نہیں دیا، نہ ہی ان پر جمعہ کی نماز فرض کی گئی ہے نہ جانے کیوں چودہ سو سال بعد پروفیسر امینہ ودود اور اسریٰ نعمانی جیسی خواتین کے دماغ میں یہ سودا سمایا کہ وہ جمعہ کی نماز نہ صرف پڑھیں بلکہ پڑھائیں بھی اور وھ بھی صرف عورتوں کو ہی نہیں بلکہ مردوں کو بھی، یہ لازمی بات ہے کہ یہ ’سودا‘ سمایا نہیں بلکہ سموایا گیا ہے۔ کیا مساوات کے اظہار کا یہی طریقہ ہے کہ باجماعت نماز کی امامت کرلی جائے؟ (ماہنامہ ’فیصل‘ دہلی: مئی ،ص10،11)