کتاب: محدث شمارہ 289 - صفحہ 13
کئی ایک اسلامی تعلیمات سے انحراف تو نظر نہیں آتے بلکہ بڑی سادگی سے وہ اس جماعت کی امامت کرانے والی عورت پر ’نیک وپارسا‘ ہونے کا فتویٰ صاد رکرتے ہیں جو ان تمام تر انحرافات کو قائم کرنے کا سبب بنی ہے۔ اس موضوع پر اخبارات وجرائد میں بیسیوں مضامین شائع ہوئے ہیں مگر کسی ایک محقق یا عالم نے بھی ایسی امامت کا جواز کشید نہیں کیا۔لیکن اشراق نے مسلمانوں میں اختلاف پیدا کرنے کے لئے نادر اقوال، باطل احتمالات اور دور ازکار تاویلات کی بنا پر اسلامی ذخیرۂ علم کے کونے کھدروں سے ا س کا جواز کھینچ ہی نکالا ہے۔ یہ بحث خالصتاً دینی اور لادینی طبقات کی بحث تھی، تحریک ِنسواں کے علمبرداروں نے ہی اپنے مقاصد کے لئے اِسے اٹھایا تھا لیکن حلقہ اشراق نے تمام تر پس منظر اور پیش منظر کو نظرانداز کرتے ہوئے پہلے اسے صرف ایک نکتہ پر مرکوز کیا پھر اسے ایک فقہی بحث بنادیا اور مسلمانوں کا فقہی اختلاف نکال کر گویا اس کا جواز ثابت کرنا شروع کردیا۔ عالمی میڈیا کی اس بحث میں غیرمعمولی دلچسپی گذشتہ دنوں سامنے آچکی ہے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہیں اس امر سے کیا دلچسپی ہے کہ فقہ اسلامی میں کیا چیز جائزہے اور کیا حرام؟ ان کی دلچسپی کی واحد وجہ اسلام کی بطورِ دین ہزیمت کرانا اور لبرل وسیکولر طبقہ کا دین کے اہم شعارات کا مذاق اُڑانا ہے۔ اس لئے ہمیں اس امر سے ہی اختلاف ہے کہ اس معاملے کو مکمل پس منظر میں دیکھنے کی بجائے اسے فقہی اختلاف کا موضوع بنالیا جائے۔ محدث کے حالیہ شمارے میں شائع ہونے والے مضامین اسی مضمون کے ردّ عمل میں لکھے گئے ہیں جو اشراق نے مئی 2005ء کے شمارہ میں شائع کیا ہے اور جس میں اُنہوں نے ہرممکنہ طریقہ سے عورت کی امامت ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا یا ہے۔ عورت کی امامت کے بارے میں شریعت ِاسلامیہ کا موقف تو ان فاضل علماء کرام کے مضامین کے بعد نکھر ہی جائے گا، لیکن حلقہ اشراق کی اسلام پر اعتراض کرنے والوں سے ہم نوائی ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کے لئے مخلصانہ طور پر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین! (حافظ حسن مدنی)