کتاب: محدث شمارہ 289 - صفحہ 12
اختیار کرتا جارہا ہے کہ وہ دو سے زائد بار جنرل پرویز مشرف سے علیحدگی میں خصوصی ملاقات کرچکے ہیں اور خود امریکی سفیربھی اس سلسلے میں ان کے گھر آچکے ہیں ۔یہ باتیں حلقہ اشراق میں عام پھیلی ہوئی ہیں ۔ پاکستان میں روشن خیالی کا پرچارک ٹی وی چینل ’جیو‘ بطورِ خاص مسٹر جاوید غامدی کو نمائندگی دے رہا ہے اور ایک پرائیویٹ چینل ’آج‘ تو گویا انہی کے افکار کے لئے مخصوص ہے۔ انگریزی اخبار ’ڈان‘ میں اشتہارات شائع کرانے پر اس قدر اخراجات اُٹھتے ہیں کہ کوئی مذہبی تنظیم اس کی متحمل نہیں ہوسکتی لیکن جناب غامدی کے اوّلین صفحہ پر نصف صفحہ کے اشتہار اس اخبار میں تواتر سے شائع ہوتے ہیں جس میں ان کے ٹی وی پروگرام دیکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ گذشتہ سالوں میں ادارۂ اشراق لاہور سے کراچی تک پہنچ پایا تھا، ان ملاقاتوں کے بعد ان کی سرگرمیاں 5 شہروں جن میں ملتان بطورِ خاص شامل ہے، تک پہنچ چکی ہیں جہاں بڑی تعداد میں ان کا لٹریچر تقسیم کیا جاتا ہے۔
بظاہر دینی سرگرمیاں کسی تنظیم کے لئے شرمندگی کی بجائے باعث ِافتخار ہونی چاہئیں لیکن جب حلقہ اشراق کے پیغام اور ان کی تحقیقات کا مرکزی نکتہ تلاش کیا جاتاہے تو وہ تمام تر ایسے ایشوز ہیں جو عالمی استعمار کے اسلام کے خلاف ایجنڈے کی تبلیغ کرتے ہیں ، ان کی تحقیق کی تان بھی انہی کی ہم نوائی پر آکر ٹوٹتی ہے۔
اب یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ عام اسلامی تحریکوں کے برعکس جناب غامدی اسامہ بن لادن کو دہشت گرد، طالبان کو ظالم اور امریکی اقدامات کو برحق سمجھتے ہیں ۔ان کی نظر میں فلسطینی عوام کا کردار بھی دہشت گردانہ ہے ۔جہاد کو وہ منسوخ تو نہیں کہتے لیکن جہاد کے لئے جن شرائط کو وہ پیش کرتے ہیں ، اس کے بعد عملاً جہاد کا حکم منسوخ ہوجاتاہے۔ عورت کا پردہ اور حجاب، تصویر ومجسمہ سازی کو جائز قرار دینا، رقص و سرود کا جواز بلکہ نبی کریم وصحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر رقص وسرود کا الزام عائد کرنا، سیاسی طور پر بیت المقدس کو یہودیوں کے حوالے کردینا وغیرہ ان کے ایسے علمی و تحقیقی کارنامے ہیں جن سے اس درخت کا پھل بخوبی پہچانا جاسکتا ہے۔
حلقہ اشراق کی تازہ ترین کاوش اسی عورت کے امامت کے مسئلہ پر ڈاکٹر امینہ ودود اور اسریٰ نعمانی کے کارنامے کی حمایت میں سامنے آئی ہے۔ ایسے اہل فکر وتدبر کو اس واقعے میں