کتاب: محدث شمارہ 289 - صفحہ 11
کوشش ہے جس کے مرتکب افراد کو کم سے کم الفاظ میں بھی ’لادین ‘قرار دیا جاسکتا ہے۔ روزنامہ انصاف میں 16/مئی کو مولانا محمد اسمٰعیل لکھتے ہیں : ”یہ نماز اللہ کے ہاں مقبول یا نا مقبول ہونے کے لئے پڑھی ہی نہیں گئی بلکہ اس کا مقصد تو حیا اور پردے کے سنہرے احکامات کا مذاق اڑانا تھا اور وہ حاصل ہوگیا۔ سوال پیداہوتا ہے کہ کیا امینہ ودود نے امامت اس لئے کرائی کہ وہ ایک نماز کے بجائے 25 نمازوں کے اجر کی طالب ہے ؟ یا اسریٰ نعمانی نے اس امامت کی نماز کے علاوہ کوئی اور نماز بھی کبھی پڑھی ہے یا اس امامت کے علاوہ اسلام کی کوئی اور اطاعت بھی کبھی کی ہے یا اس کا کوئی حکم عملاً مانا ہے؟“ ……………………………… مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں ہمیشہ سے ایسے لوگ رہے ہیں جو اسلام کی مقدس تعلیمات کے آگے سرتسلیم خم کرنے کی بجائے اسلام دشمنوں کی سازشوں کو خود اسلام سے سند جواز مہیا کرنے میں کوشاں رہتے ہیں ۔ ان کے نزدیک علم و تحقیق کی معراج ہی یہ ہے کہ دوسروں کے اعتراضات کو جائز ثابت کرنے کے لئے اپنے ہاں سے بھی شاذو نادر باتیں ڈھونڈ کر ان کی تائید میں پیش کر دی جائیں ۔ پاکستان میں یہ افسوسناک کردار مسٹر جاوید احمد غامدی کا حلقہ اشراق کررہا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں امریکہ کی یہ پالیسی واضح طور پر آچکی ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لئے دین دار طبقہ کے بالمقابل آزاد فکر دانشوروں کی ہرذریعہ سے مدد کی جائے اور خود سامنے آنے کی بجائے مسلمانوں کے مقابلے میں بظاہر انہی جیسے آزاد خیال مسلمانوں کو لایا جائے۔ یہ بات بھی امریکی پالیسی میں شائع ہوچکی ہے کہ حدیث ِنبوی پر زیادہ سے زیادہ اعتراضات کو ہوا دی جائے اور عورتوں کے حقوق کے بارے میں بڑھ چڑھ کر اسلامی نظریات پر شبہات واعتراضات پیش کئے جائیں ۔ (دیکھیں ’ روشن خیالی کے امریکی سرچشمے‘: ’محدث‘ جنوری 2005ء) اس امر کی نشاندہی افسوسناک ہے کہ جاوید احمد غامدی کا یہ حلقہ ان دونوں میدانوں میں اسلام کے خلاف شکوک وشبہات کو اُبھارنے میں نمایاں کردار پیش کرنے میں کوشاں ہے۔ جناب غامدی کا اس روشن خیالی اور اعتدال پسندی کو مہمیز لگانے کا کردار اس طرح بھی اہمیت