کتاب: محدث شمارہ 289 - صفحہ 10
نمازوں کے لئے جمع ہوجائیں تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں لیکن اسے ایک عام مسجد کی حیثیت دینا اور اس میں خواتین کا خطبہ جمعہ وغیرہ پڑھنا یا اذان دینا وغیرہ بالکل اجنبی امر ہے کیو نکہ اسلام کی رو سے مسجد صرف نماز باجماعت ادا کرنے کی جگہ کو نہیں کہتے بلکہ وہ مسلم معاشرے کا مرکزبھی ہوتا ہے جس میں ان کے قومی وملی مسائل حتیٰ کہ حکومتی اور عدالتی مسائل بھی حل کئے جاتے رہے ہیں ۔ اسلامی مساجد عسکری تربیت کے علاوہ تعلیم وتدریس کا مرکز بھی رہی ہیں ، اس لئے ایسی مساجد کو معروف معنوں میں مساجد نہیں کہا جاسکتا اور ان سے گریز ہی کرنا چاہئے ، البتہ خواتین اپنے طورپر کوئی جگہ نماز کیلئے طے کرنا چاہیں تو اس کی گنجائش ضرور پائی جاتی ہے۔
ہمارے پیش نظر واقعہ میں اصل مسئلہ عورت کی عورتوں کے لئے امامت کا نہیں بلکہ عورت کی مردوں کی امامت وقیادت کا ہے۔گویا اس واقعہ کے ذریعے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ اسلام میں صرف مرد ہی عورت کی قیادت کا اہل نہیں بلکہ صنفی مساوات کے ناطے عورتوں کو بھی مردوں کی ہرمیدان میں قیادت کا حق حاصل ہے۔
٭ مزید برآں اس واقعے میں کئی اسلامی احکامات کا مذاق اُڑایا گیا ہے ، اس کے بعد اسے محض عورت کی امامت کا مسئلہ قرار دینا مناسب نہیں ۔ جہاں تک عورتوں کے مردوں کے ساتھ صف بندی کا تعلق ہے یا ننگے سر نماز پڑھنے کا مسئلہ ہے یا عورتوں کا چست لباس پہننا اور بے حجابی اختیار کرنا یا گرجا گھر میں مجسّموں کی موجودگی میں نماز ادا کرنا اور عربی کی بجائے انگریزی زبان میں نماز پڑھنا، تو ان تمام اُمور کے ناجائز ہونے کے بارے میں مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ باتیں اسلام کی مسلمہ تعلیمات سے انحراف ہی ہیں ، اس کے بعد اس کو ایک جزویفقہی مسئلہ بنانا یا اس میں مسلمانوں کے داخلی اختلافات کی جستجو کرکے اسے پیش کرنا اسلام کی کونسی خدمت ہے؟
ان باتوں کو عالمی میڈیا پرلانے اور اُنہیں زیر بحث بنانے کا اس کے سوا کوئی مقصد نہیں کہ اسلامی تعلیمات کو بدنام کیا جائے اور اسلامی شعائر جمعہ یا جماعت کا تمسخر اُڑایا جائے۔ یہ کوئی فقہی اختلاف کا مسئلہ نہیں ہے کہ جس میں مسلمانوں کی اختلافی آرا ڈھونڈ کر کوئی گنجائش نکل سکتی ہو بلکہ یہ واقعہ اپنی مجموعی صورتحال کے لحاظ سے اسلام کا استہزا اور اسے بدنام کرنے کی