کتاب: محدث شمارہ 288 - صفحہ 9
نفاذکے مطالبہ میں بھی ملتا ہے تاکہ جس طرح سرکاری سطح پر قانون نافذ العمل ہوکر حکومت و رعایا کے لئے واجب التعمیل قرار پاتا ہے، اسی طرح شریعت کے احکام کو بھی یہی حیثیت مل جائے۔ سیکولر حضرات کے پاس اس کے خلاف بہت بڑا حربہ یہ ہے کہ وہ اس سلسلہ میں شریعت کی دفعہ وار تدوین کا مسئلہ کھڑا کردیتے ہیں کہ جب تک احکامِ شریعت قانون کی طرح دفعہ وار مرتب نہ ہوں ، ان کا نفاذ جدید دور میں ممکن نہیں ! … یوں بظاہر وہ شریعت کا انکار کرنے کی بجائے نفاذِ شریعت میں ایک ایسے خلا کا عذر پیش کرتے ہیں کہ جس کی تکمیل کے دوران انہیں اس بات کی اُمید ہوتی ہے کہ مسلم دانشور اور فقہا اسی میں اُلجھ کر رہ جائیں گے، اوراگر ایک عرصہ کی محنت ِشاقہ اور جذبہ مفاہمت کے باوجود یہ کام ہوبھی گیا تو بہرحال یہ ایک انسانی محنت ہوگی کہ جس میں حالات کی تبدیلیوں سے مفاہمت کے اطوار بھی بدلتے رہیں گے لہٰذا اس کی حیثیت دائمی نہ ہوگی۔ چنانچہ ہر دم تغیر کی ضرورتوں سے جہاں شریعت کا تقدس مجروح ہوگا، وہاں ہر لحاظ سے یہ شکوک و شبہات کا مظہر بھی بنے گی اور یوں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ اپنے ہی الجھاوٴ میں محض نعرہ کی حد تک محدود رہے گا،پھراسی بنا پر شریعت کو بدنام کرنا بھی آسان ہوگا کہ دور جدید میں نفاذِ شریعت کے فوائد حتمی نہیں ہیں ۔ پاکستان میں حدود آرڈیننس، قانون قصاص و دیت وغیرہ اس کی مثالیں ہیں ۔
مذکورہ تفصیل سے یہ بات کھل کرسامنے آجاتی ہے کہ شریعت کی دفعہ وار تدوین کا مسئلہ کھڑا کرنا درحقیقت نفاذِ شریعت سے بچنے کی ایک کوشش ہے، تاہم مسلمان ایک عرصہ سے اس چیلنج کا مقابلہ بھی کرتے چلے آرہے ہیں ۔ چنانچہ مجلة الأحكام العدلية (1876ء) کے بعد سے لے کر اب تک مختلف اسلامی ملکوں میں اس سلسلہ کے متعدد مجموعے تیار کئے گئے جن میں سے اکثر تو اپنے اپنے ملک کے لئے تھے، لیکن بعض اجتماعی کوششیں ایسی بھی ہوئیں کہ جن کا مطمح نظر پوری دنیائے اسلام کے لئے دستور العمل تیار کرنا تھا۔ اس سلسلہ میں ماضی قریب میں مصر کے اہل علم کی اٹھارہ رکنی کمیٹی کے تیار کردہ ایک دستوری خاکہ کی مثال دی جاسکتی ہے جو کمیٹی کے ایک رکن ڈاکٹر مصطفی کمال وصفی کی اس موضوع پر اہم تالیف مصنفة النظم الاسلامية کے آخر میں مطبوع ہے۔28