کتاب: محدث شمارہ 288 - صفحہ 7
تمام متاعِ حیات و کائنات کو قربان کرنازندگی کا مقصود سمجھتے ہیں ۔
موجودہ حالات میں یہ صاف نظر آرہا ہے کہ ہماری حکومت اور صدرِ مملکت پاکستان میں اتاترک کی کرم خوردہ پرانی افرنگی سیاست کو اسلامیانِ پاکستان میں قابل قبول بنانے کے لئے اقبال کے نام پر روشن خیالی، تجدد اور اعتدال پسندی جیسی اصطلاحات استعمال کررہے ہیں جبکہ ایسی سیاست کو اقبال نے ملت کے لئے زہرہلاہل قرار دیا ہے۔ اقبال گستاخانِ رسول کے قتل کو قومی زندگی میں غیرت کی علامت سمجھتے ہیں جس کا اظہار انہوں نے ’لاہور اور کراچی‘ کے عنوان سے ’ضربِ کلیم‘ میں شہیدانِ رسالت غازی علم الدین اور غازی عبدالقیوم کے لئے کیا ہے۔ اقبال شناس تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ توہین رسالت کے قانون کو غیرموٴثر بنانے کی کوئی کوشش بھی ان کے لئے جاں کاہ صدمہ کا باعث ہوتی۔
اقبال کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا سانحہ ہوسکتا ہے کہ قرآن کے نظامِ جزا و سزا سے ہی انکار کردیا جائے اور پھر فکر اقبال کو اپنا رہنما باور کرانے کی کوشش بھی کی جائے۔ اقبال تو بارگاہ الٰہی میں عرض کرتے ہیں :”اے خدا میری زبان و قلم کا ایک ایک لفظ آقاے کائنات کے لائے ہوئے قرآن کا ترجمان ہے۔“ جس کا انہیں اتنا یقین ہے جتنا کہ خود اپنے وجود کا ۔ اس یقین کی قوت سے وہ یوں گویا ہیں : ”اگر قرآن کے سوا میں نے کوئی بات کی ہو تو میرے ناموسِ فکر کے پردے کو چاک کردے۔ میری رگِ جاں سے ہر تارِنفس کو چھین لے۔“
اگر ہمارے حکمران اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں تو انہیں یہ دو عملی اور مداہنت کو ختم کرنا ہوگا۔ اقبال کے پیش نظر بھی قرآن وسنت کی اتباع کرنا تھا اور ہمیں بھی صرف انہی افکار کی پیروی کرنا ہے جو قرآن و سنت کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں ۔ مگر ایک صاحب جو قرآن و سنت کے محکمات کو بھی بخوبی نہ جانتے ہوں ،جنہیں علامہ اقبال اور قائداعظم کے تعلق یا قرآن اور احکامِ نبوت سے ان کی وابستگی کا بھی پوری طرح علم نہ ہو، وہ ان رہنماوٴں کے فکروعمل کی روشنی میں پاکستان کو لے کر آگے بڑھنے کا دعویٰ کریں تو اس سے بڑھ کر اور کیا آثارِ قیامت ہوسکتے ہیں ۔ العجب ثم للعجب!
محمداسماعیل قریشی (سینئرایڈووکیٹ سپریم کورٹ)