کتاب: محدث شمارہ 288 - صفحہ 6
ایک پس منظر میں اس اصطلاح کو وہ برے مفہوم میں بھی لاتے ہیں اور وہ ایسا شخص جس میں دینی حمیت اور غیرت نہیں اور جو ظالم کے خلاف جنگ کی بجائے اپنوں سے جنگ و جدل کرتا ہو اور فکرونظر میں فساد کا باعث ہو، ان کے نزدیک ایسا ’ملا‘ ہے جس کے وہ مخالف ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا شخص جو بول چال میں انگریزوں کی نقل کرتا ہو، اقبال رحمۃ اللہ علیہ اسے بھی خطرناک ملا قرار دیتے ہیں ۔ اقبال کا عقیدہ ہے کہ جہاد دین کی اساس ہے، چنانچہ مردِ مجاہد کے خلاف یورپ کی منصوبہ بندی کا راز اس طرح فاش کرتے ہیں کہ وہ اسے ترک جہاد کی تعلیم دیتا ہے۔
آزادئ افکار کی روشن خیالی کو اقبال ابلیس کی ایجاد کہتے ہیں
گو فکر خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادئ افکار ہے ابلیس کی ایجاد
جو لوگ خود کو نہیں بدلتے بلکہ اپنی خواہشوں کے مطابق قرآن کو بدلنا چاہتے ہیں ، انہیں وہ عقل کے مادر زاد اندھے سمجھتے ہیں ،جن کے نصیب میں قرآن کا نورِ بصیرت نہیں ، ایسے لوگوں کے بارے میں اُنہیں اندیشہ تھا کہ وہ ماڈرن ازم، تجدید اور جدیدیت کے بہانے یورپ کی اندھی تقلید کریں گے ۔
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازہٴ تجدید
مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ
زمانہٴ حاضر میں دماغ تو روشن ہے لیکن دل سیاہ اور تاریک اور نگاہ بے ادب ہے
یہی زمانہٴ حاضر کی کائنات ہے کیا
دماغ روشن دل تیرہ و نگہ بے باک
اسلام کو جدید و قدیم میں تقسیم کرنا کم عقلی کا نتیجہ ہے۔ اسلام تو ایسا دین ہے جس نے قدیم و جدید سب کااحاطہ کیا ہوا ہے۔
اقبال کی شاعری کا محور و مرکز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی اور ان کا لایا ہوا دین ’اسلام‘ ہے، اس لئے ان کا ایمان ہے : آبروئے ما ز نام مصطفی است اس نام و ناموس کی حرمت پر وہ