کتاب: محدث شمارہ 288 - صفحہ 5
تہذیب و تمدن کو نہایت قریب سے دیکھا تھا۔ اس کے فکرو فلسفہ، اس کی نفسیات کا بہت گہرا مطالعہ کیا تھا۔ چنانچہ اتاترک نے جب اسلام گریز لادینی رجحانات اور اقدامات کا آغاز کرتے ہوئے ترکی زبان کے عربی ماخذ کو ختم کرکے عربی رسم الخط کو لاطینی میں تبدیل کردیا تو اقبال نے اس کو بروقت یہ کہہ کر ٹوک دیا تھا : لادینی و لاطینی کس پیچ میں اُلجھا تو دارو ہے ضعیفوں کا لا غالب إلا هو اقبال کی یہ کیسی روشن خیالی ہے جو اتاترک جیسے ترقی پسند شخص کو رجعت پسندی کی طرف بلا رہی ہے۔ اسلامی دنیا کے مسلمان ملک ترکی اور ایران کے حکمران مصطفی کمال اور رضا شاہ پہلوی کی مغربیت سے بیزار ہوکر وہ مستقبل میں روحانی اور انسانی پیکر کی آمد کے منتظر تھے نہ مصطفی میں ، نہ رضا شاہ میں نمود اس کی کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی! ترکی اور ایران کا موجودہ انقلاب ان کی دینی بصیرت پر ان کی زندگی ہی میں آشکار ہوگیا تھا، جس کا اظہار انہوں نے اپنی فارسی نظم ’اے جوانانِ عجم! اے نوجوانانِ عجم‘ میں کیا ہے۔ اقبال اور ملا ازم اقبال اور ملا کے بارے میں یہ غلط تصور قائم کرلیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے حریف ہیں ،لیکن فی الحقیقت اقبال ملا کو مذہب و ملت کا نگہبان سمجھتے ہیں ، جس کی دینی غیرت اور حمیت کی بدولت افغانستان میں اسلامیوں کا جذبہ حریت زندہ ہے ،جس سے یورپ اور امریکہ بھی لرزہ براندام ہیں ۔ اسی جذبہ کو ختم کرنے کے لئے ابلیس اپنے فرزندانِ سیاست سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے : افغانیوں کی غیرتِ دین کا ہے یہ علاج ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو اقبال کی نظر میں ’ملا‘ کا لفظ قابل تعریف ہے اور یہ کسی خاص طبقہ کے فرد کا نام نہیں البتہ