کتاب: محدث شمارہ 288 - صفحہ 4
ترکی پر مسلط کردیا۔ اس کے باوجود یورپ کی یہود نواز، بظاہر سیکولر مگر فی الحقیقت عیسائی امپیریلیٹ (شہنشاہیت) حکومتوں نے ترکی کو اپنے سے دور اور پرے رکھا اور اس کی فوجی آمریت امریکہ اور یورپ کی دست نگر اور ان کی امداد کے سہارے چلتی رہی۔
پہلی جنگ ِعظیم کے بعد سے اب تک کے طویل عرصہ میں ترکی نے سائنس، ٹیکنالوجی یا معاشی میدان میں کوئی ترقی نہیں کی اور نہ ہی سیاسی اور معاشی استحکام اسے نصیب ہوا۔ البتہ ماضی قریب میں جب وہاں نشاة ِثانیہ کا آغاز ہوا تو ان کا یہ اسلام گریز رویہ تبدیل ہونے لگا۔ اب یورپ کی ہمسایہ حکومت، یعنی ماڈرن ترکی کے موجودہ وزیراعظم رجب طیب ایردوغان کی اہلیہ اور ان کی بچیاں اسکارف اوڑھتی ہیں جو ہمارے جنرل مشرف کی نظر میں دقیانوسی اور پس ماندگی کی علامت ہے۔ وہاں کی جمہوری اسلام پسند پارٹی کی گورنمنٹ نے اسلامی شعائر اور کاروبار حکومت میں بے جا فوجی مداخلت کو بڑی حد تک روک دیا ہے۔ دیگر عوامل کے من جملہ اس وجہ سے بھی ترکی نے معاشی خود انحصاری کی طرف پیش رفت کی ہے۔
عجیب تماشا ہے کہ ایک طرف ترکی تلخ تجربوں کے بعد اتاترک کی سیکولر اور یورپ کی اندھی تقلید کے حدود و قیود سے باہر نکلنے کی کوشش کررہا ہے مگر دوسری طرف جناب جنر ل مشرف اتاترک کی دم توڑتی ہوئی گمراہ کن پالیسی کو ملک عزیز میں بروئے کار لانا چاہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل درآمد بھی ہورہا ہے۔ پاکستان کے مسلمان عوام نے جب مولوی اور ملّا کے ہم نوا ہوکر جنرل پرویز مشرف کی اتاترک اور آئیڈیالوجی کی مخالفت شروع کر دی تو اُنہوں نے حسب ِعادت یوٹرن لیا اور اعلان کیا کہ وہ علامہ اقبال اور قائداعظم کی روشن خیالی اور ترقی پسندی کو اپنا رہنما اُصول سمجھتے ہیں ۔ مگر ان کے عملی اقدام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اتاترک کی ڈگر پر چل رہے ہیں ۔ جنرل موصوف کو نہ تو اقبال کے افکار و خیالات اور پیغام سے پوری طرح آگہی ہے اور نہ قائداعظم کی پاکستان کے حصول کے لئے جان لیوا جدوجہد اور ان کے نظامِ مقاصد کا بخوبی علم ہے۔
یہاں ہم روشن خیال اقبال سے رجوع کریں گے۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے یورپ میں رہ کر اس کی