کتاب: محدث شمارہ 288 - صفحہ 25
”کسی بھی معاملے میں اگر (رعایا کا باہمی یا اولی الامر سے اختلاف و) نزاع پیدا ہوجائے تواس معاملہ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو۔“
عربی گرامر کی رُو سے شيىٴ نکرہ حرفِ شرط کے تحت وارد ہوا ہے جو ایسی صورت میں عموم کا فائدہ دیتا ہے، یعنی کوئی بھی معاملہ خواہ شرعی ہو یا اجتہادی، اگر اختلاف و نزاع کی صورت اختیار کرے تو اس کا فیصلہ کتاب وسنت 42سے ہوگا۔ گویا تدبیری معاملات میں اجتہادی پہلو کے اختلافات کو کتاب و سنت سے ہی حل کیا جائے گا۔
پارلیمنٹ کا دائرۂ عمل مباح اُمور میں تدبیر وانتظام کی حد تک ہے !
حاصل یہ ہے کہ پارلیمنٹ کا دائرہ کار صرف مباحات تک محدود ہے ،جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے:
”وكانت الأئمة بعد النبى صلی اللہ علیہ وسلم يستشيرون الأمناء من أهل العلم في الأمور المباحة ليأخذوا بأسهلها فإذا وضح الكتاب والسنة لم يتعدوه إلى غير“43
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفا صرف مباح اُمور میں اصحابِ علم و امانت سے مشورہ لیا کرتے تھے، تاکہ آسان ترین صورت اختیار کرسکیں ،لیکن اگرکتاب اللہ یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت موجود ہوتی تو کسی دوسری جانب (ہرگز) نہ دیکھتے تھے۔“
اور اباحت کا بھی ایک پہلو چونکہ شرعی حکم ہونے کا ہے، اس لئے اس پر نگرانی کتاب و سنت کی ر ہنی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ اولی الامر کی اطاعت مشروط ہوتی ہے۔ مباح اُمور پر شریعت کی نگرانی کے لئے جنگ ِبدر کے قیدیوں کی مثال بطورِ دلیل پیش کی جاسکتی ہے۔ جنگی تدابیر میں اُولی الامر کو اجازت ہے کہ وہ مشورہ کے بعد کوئی سی بھی تدبیر اختیار کرلیں ۔ لہٰذا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کے بعد اساریٰ بدر کو فدیہ لے کر رہا کرنے کا فیصلہ فرمایا تھا۔ لیکن قرآن مجید نے اس مباح امر میں بھی ایک شرعی حکم سے ہٹ جانے کی بنا پر سرزنش کی، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا:
”اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ عذاب دکھایا (جو اس فیصلہ کی بنا پر ہم پر مسلط ہوسکتا تھا) اور اگر وہ