کتاب: محدث شمارہ 288 - صفحہ 24
طلِّقها قال تشهد أنها حرام؟ قال هي خمرة،قال قد علمتُ أنها خمرة ولكنها لي حلال. فلما كان بعد طلَّقَها فقيل له اَلاَ طلَّقتَها حين أمرك عمر قال كرهت أن يرى الناس أنى ركبت أمرا لا ينبغي لي39 ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کتابیہ عورتوں سے نکاح کرنے والوں کو حکم دیا کہ ان عورتوں کو طلاق دے دی جائے تو سوائے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے سب نے طلاق دے دی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں بار بار فرمایا کہ ”اسے (اپنی بیوی کو) طلاق دے دو۔“ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:”کیا آپ اس کے حرام ہونے کی گواہی دیتے ہیں ؟“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”وہ مدہوش کرنے والی ہے، اسے طلاق دے دیں ۔“ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے دوبارہ (زور دے کر) فرمایا: کیا آپ اس کے حرام ہونے کی گواہی دیتے ہیں ؟“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر وہی جواب دیا کہ ”وہ مدہوش کرنے والی ہے۔“ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بولے: ”یہ تو میں جانتا ہوں کہ وہ مدہوش کرنے والی ہے، تاہم وہ میرے لئے حلال ہے۔“ (بات ختم ہوگئی) لیکن کچھ عرصہ بعد حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے از خوداسے طلاق دے دی۔ لوگوں نے پوچھا:” آپ نے یہ طلاق اس وقت کیوں نہ دی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو حکم دیا تھا؟“ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ”میں اسے بُرا سمجھتا تھا کہ لوگ مجھے وہ کام کرتا دیکھیں جو (شرعی طور پر) مجھے لائق (لازم) نہ تھا۔“ ان واقعات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خلیفہ راشد بھی نہ تو شریعت ِمحمدی میں تبدیلی کرسکتا ہے، نہ اپنی تعبیر شریعت ہی میں دوسروں کو پابند بنا سکتا ہے۔ پہلی مثال حدود میں تعزیر جمع کرکے بظاہر شریعت کی تبدیلی کی ہے تو دوسری مثال قرآنی حکم ﴿وَلَاتَنْكِحُوْا الْمُشْرِكَاتِ حَتّٰى يُوٴْمِنَّ﴾40کی ایسی تعبیرکی ہے جو کتابیہ عورت کو بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے معارضہ کے وقت اس دور کے اہل کتاب کا مشرک ہونا واضح بھی کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ تدبیری معاملات میں انتظامی اختیارات کے علاوہ اگر اجتہادی پہلو سے شرعی احکام کا سوال سامنے آئے تو اولی الامر کی مشروط اطاعت کی بنا پر، ان کے اجتہاد کی پابندی لازمی نہیں ہوتی۔ فقہا نے اطاعت ِاولی الامر والی مشہور آیت ِقرآنی کے آخری حصہ سے بھی یہ استدلال کیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِىْ شَيْئٍ فَرُدُّوْه اِلَى اللهِ وَالرَّسُوْلِ … الاية﴾ 41