کتاب: محدث شمارہ 288 - صفحہ 23
صرف اس صورت میں ملتی ہے کہ ان کے ائمہ مذہبی رہنمائی کے ساتھ ساتھ بالقوة (Dejure) حکمران بھی تھے۔ لہٰذا ان کے نزدیک ان ائمہ کی روایت و درایت سنت رسول کے قائم مقام ہوکر دین ورسالت کا حصہ متصور ہوتی ہے… لیکن سنی فقہا کے نزدیک رسالت اور حکومت کا منصب فکری اعتبار سے علیحدہ علیحدہ ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تو باقی ہے اور رہے گی، لیکن حکومت میں خلافت کا سلسلہ چل رہا ہے۔ خلیفہ کا کام صرف تدبیر و انتظام ہے، رسالت میں اس کا دخل نہیں ۔ تاہم تدبیر و انتظام اور سیاست ِملکی میں وہ اس طریق کار کا پابند ہے جو تعلیماتِ رسالت میں حکومت کے لئے طے ہوچکا ہے، کیونکہ حکومت کے رسالت سے الگ ہوجانے کے باوجود حکومت ان اُصول و ضوابط کی پابند ہوتی ہے جو کتاب و سنت میں اس شعبہٴ حیات کے لئے دیے گئے ہیں اور یہی معنی اسلام کے کامل ضابطہ حیات ہونے کے ہیں ۔
رسالت اور خلافت و حکومت کی اطاعت کے فرق کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کس قدر ملحوظ رکھتے تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شرابی کی سزا 80 کوڑے کردی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں چالیس تھی۔38 اسی تبدیلی کی بنا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ فرمایاکرتے تھے کہ اگر کوئی شخص چالیس پر، چالیس مزید کوڑے کھاتا ہوا مرگیا تو اس کا خون بہا دیا جائے گا۔ ظاہر ہے اگر یہ اقدام ( سزا میں اضافہ ) شریعت ہوتا تو نفاذِ حدود میں خون بہا کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔
اسی سلسلہ کی دوسری مثال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس حکم سے دی جاسکتی ہے جو آپ رضی اللہ عنہ نے کتابیہ (یہود و نصاریٰ کی عورتوں ) سے نکاح کی ممانعت کے بارے میں جاری کیاتھا اور جس پر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے عمل کرنے سے انکار کردیا تھا لیکن پھر کچھ عرصہ بعد خود ہی انہوں نے اپنی کتابیہ منکوحہ کو طلاق بھی دے دی۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اپنے اس طرزِ عمل کی جو وضاحت پیش فرمائی، وہ درج ذیل سطور سے ظاہر ہے:
قال (عمر) للذين تزوجوا من نسآء أهل الكتاب: طلِّقوهن، فطلَّقوهن إلا حذيفة فقال له عمر: طلِّقها قال تشهد أنها حرام؟ قال هي خمرة