کتاب: محدث شمارہ 288 - صفحہ 22
انتظام کے میدان سے متعلق ہے۔ چنانچہ خود خلیفہ کا یہ اختیار کہ وہ انتظام و انصرام کرے اور تدبیری اقدامات بھی بجا لائے، سنت ِرسول سے ثابت ہے۔ تاہم خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے یہ اقدامات خود شریعت نہیں ہیں ، ہاں ان کی حیثیت ہمارے لئے ایک اہم تاریخی سرمایہ کی ہے۔
شریعت اور تاریخ کا یہ فرق ملحوظ نہ رکھنے کی بنا پر ہی اس بارے میں یہ افراط و تفریط ہوئی ہے کہ متاخرین اصحابِ مذاہب نے جب سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے ایسے اقدامات کو بھی شریعت کی سی ابدی حیثیت دے دی تو اس کے رد عمل کے طور پر جدید دانشوروں نے سنت ِرسول کو ہی تاریخی مقام دینا شروع کردیا۔ حالانکہ جہاں پہلی صورت میں سنت ِرسول کو جو ابدی اُسوہٴ حسنہ کی حامل ہے، سابقہ نظائر میں ایسی نظیر کا درجہ دینا غلط ہے کہ جس کا تسلسل خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم بلکہ بعد کے خلفا کے نظائر کی صورت میں بھی قائم رہے کیونکہ یہ نبوت کا تسلسل ہوگا ، وہاں دوسری صورت میں ’مرکز ِ ملت‘ کا نظریہ بھی گمراہ کن ہے کہ جس کے تحت سنت ِرسول کو جملہ خلفا کے تاریخی نظائر کے برابر حیثیت دے دی گئی ہے۔ گویا اس نظریہ کے موجد کے نزدیک رسول کا معنی حکمران ہے۔اور یوں اس نظریہ کا لازمہ بھی رسالت کا تاقیامت تسلسل ہے۔ اس ذہن نے مشہور مستشرق جوزف شاخت کے افکار کی تعمیل میں ’سنت ِاجماع‘ کا نظریہ پیش کیا ہے ،جس میں شخصی رائے جب عوام الناس میں مقبول ہوجائے تو وہ بھی ’سنت‘کہلاتی ہے۔ گویا اس طرح متجددانہ اجتہادات کو نام نہاد ’اجماع‘کی حیثیت سے سنت قرار دینے کا حربہ اختیار کیا گیا ہے تاکہ سنت کے پسندیدہ لفظ سے من مانے اقدامات کواسلامی باور کرایا جاسکے۔ اسے وہ ’سنت ِجاریہ‘ سے بھی تعبیر کرتے ہیں ،حالانکہ یہ حکمرانوں کی بجائے معاشروں کو شریعت سازی کا اختیار دینے کے مترادف ہے، چنانچہ یہ نظریہ بھی ’مرکز ِملت‘ ہی کے افکار کی بازگشت ہے۔ پھر تعجب ہے کہ آج بعض سنی دانشور بھی اسی نظریہ ’سنت ِاجماع‘ یا ’تعامل مسلمین‘ کے نام سے سنت کی تعریف میں توسیع کرکے حکمرانوں کو خوش کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں ۔
رسالت و خلافت کی یکجائی کے اوّل الذکر نظریہ کی مخصوص جھلک شیعہ حضرات کے ہاں