کتاب: محدث شمارہ 288 - صفحہ 21
اجتہاد کی پابندی کے نام پر، یہ اِصْروتقلید گوارا نہیں کی جاسکتی۔ پچھلی اُمتوں کی گمراہی کا باعث بھی یہی تھا اور افسوس یہ اُمت بھی اسی راستہ پر جارہی ہے۔ گزشتہ سطور میں تدوین بائبل کی مثال سے اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔
پارلیمنٹ میں فقہی نمائندوں کی حیثیت
(4)ہم چوتھے نکتے کی طرف آتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں مختلف فقہی نمائندوں کی حیثیت یا ماہرین قانون و شریعت کی کونسل کے اختیارات کیا ہونے چاہئیں ؟
اس سلسلہ میں یہ بنیادی بات اگرچہ فیصلہ طلب ہے کہ قانون ساز پارلیمنٹ کی اسلامی شریعت میں کیا حیثیت ہے؟ لیکن چونکہ ہم پہلے یہ واضح کرچکے ہیں کہ اسلامی حکومت کا دستور قرآنِ کریم ہوتا ہے، جس کی واحد ابدی تعبیر سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی محفوظ و مصئون موجود ہے، لہٰذا اب پارلیمنٹ کے بارے میں قانون سازی کی جو بھی بحث ہوگی، وہ قواعد و ضوابط (Bye Laws) یا انسدادی اور تعزیری احکام وغیرہ تک محدود ہوگی۔ چنانچہ فی الوقت ہم اس بحث سے قطع نظر کہ پارلیمنٹ کو خلیفہ کے قائم مقام ٹھہرایا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ علی سبیل التنزل پارلیمنٹ کو خلافت اور ’شوریٰ‘ ہی کی حیثیت دے کر گفتگو کرتے ہیں ۔
اسلامی سیاست کا یہ امتیازی پہلو ہے کہ یہاں بنیادی دستور اور اس کی تعبیر کا مسئلہ بھی چودہ صدیاں قبل ہی طے پاچکا ہے جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ’خاتم النّبیین‘ ہونے اور آپ کے بعد تاقیامت کسی بھی نبی یا رسول کی گنجائش موجود نہ ہونے کی بنا پر نہ صرف اس دستور اور اس کی تعبیر کی تنسیخ کا سوال ختم ہوچکا ہے بلکہ﴿اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ،الاي37 آیت ِقرآنی کے تحت اس میں ترمیم و اضافہ کا جواز بھی خارج از امکان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاقیامت قائم ہونے والی ہر اسلامی حکومت کا دستور خود بخود کتاب و سنت بن جاتا ہے اور جو حکومت کتاب و سنت کی دستوری حیثیت تسلیم نہیں کرتی وہ اسلامی کہلانے کی حقدار نہیں ہوتی۔
جہاں تک خلافت کے منصب کا تعلق اور ضرورت ہے تویہ منصب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد صرف اس شخصی خلا کو پُر کرنے کی حد تک محدود ہے جو تدبیر و