کتاب: محدث شمارہ 288 - صفحہ 20
کے مسئلہ میں حضرت ابوذررضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تقلید پر تو مجبور نہ کیا36 لہٰذا حکم شریعت وہی باقی رکھا جس کو وہ خود برحق سمجھتے تھے۔ لیکن انتشارِ فکری کے خوف سے انہیں مقام ’ربذہ‘ میں بھیج دیا۔ تاہم انہیں اُن کی واضح غلطی کے باوجود رائے بدلنے پر مجبور نہیں کیا۔ واضح رہے کہ حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ مال جمع کرنے والوں کو بہرصورت ’کنز‘ کی وعید کا مستحق قرار دیتے تھے، خواہ اس مال کی زکوٰة بھی دی جاچکی ہو، حالانکہ اگر یہ موقف مانا جائے تو اس صورت میں مال میں زکوٰة اور وراثت کے کوئی معنی ہی باقی نہیں رہتے۔ دراصل خلیفہ انتظامی معاملات کو انجام دیتے ہوئے جب شرعی اُصولوں اور ہدایات کو عمل میں لاتا ہے تو اس اعتبار سے اس کی شرعی حیثیت خود شرع پر عمل درآمد کی ہوتی ہے جس میں وہ اپنے منصبی فرائض بھی انجام دیتا ہے لیکن رعایا کی حیثیت اس میں صرف اطاعت ِامیر کی ہوتی ہے۔ چونکہ بالفعل رعایا اس اجتہاد پر عمل کرتی نظر آتی ہے، لہٰذا اس کے اجتہاد کی لازمی حیثیت تقلید معلوم ہوتی ہے۔ حالانکہ خلیفہ اپنے اجتہاد پر عمل کرانے کے باوجود کسی عالم کو اپنے اجتہاد کے درست تسلیم کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ لہٰذا علما سمیت رعایا کی بالفعل اطاعت لیکن ذہناً علماء دین کا اپنے اجتہاد پر قائم رہنا، دو الگ الگ امر ہیں ۔ جن کا لحاظ رکھنے سے اطاعت ِامیر اور تقلید ِفقہی کا فرق واضح ہوگا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ہم ان مغالَطوں کی طرف بھی اشارہ کردیں جو جدید دانشوروں کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعض اجتہادات کے سلسلے میں ہوتے ہیں او رجنہیں ’اولیاتِ عمر رضی اللہ عنہ ‘کے نام پر خلیفہ کی طرف سے شریعت کی تبدیلی کا اختیار قرار دیا جاتا ہے۔ تفصیلی مثالوں اور ان کی توضیح کا تو یہ موقع نہیں ، مختصر یہ کہ ان میں سے بیشتر انتظامی اختیارات سے متعلق ہیں ، جن کی تدبیر میں مصالح شرعیہ کا لحاظ رکھا گیا۔ اس بحث سے حاصل یہ ہے کہ خلافت شخصی ہو یا پارلیمنٹ کو خلافت کے قائم مقام ٹھہرایا جائے، اس کا تعلق صرف تدبیر و انتظام سے ہے اور قواعد و ضوابط کا اختیار بھی خلیفہ یا پارلیمنٹ کو اِسی حد تک ہے۔ لیکن شریعت کے اندر اگر مداخلت ہو تو خواہ یہ تدوین کے نام سے ہو یا