کتاب: محدث شمارہ 288 - صفحہ 2
کتاب: محدث شمارہ 288 مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور ترجمہ: `بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکرونظر حافظ حسن مدنی روشن خیال پاکستان؟ فرسودہ خیالات اور دقیانوسی روایات کی دورِ جدید میں قطعی کوئی گنجائش نہیں ۔عرصہ دراز میں زمانہ ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ ماضی سے اس کا رشتہ کٹ چکا ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور معاشی ترقی کی تیز رفتار دوڑ میں مذہب زمانہ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ چادر، چاردیواری، حجاب، اسکارف اور داڑھی ملا کا دین اور پسماندگی کی نشانی ہے۔ تلوار اور آتشیں اسلحہ سے جنگ اور جہاد کا دور ختم ہوچکا، اب اس کی بجائے ڈپلومیسی سے کام لیا جاتا ہے۔ بدکاری، ڈکیتی وغیرہ کے خلاف اسلامی حدود کا ازسرنوجائزہ لے کر نئے اجتہاد کے دروازے کھولنا پڑیں گے۔ چوروں کے ہاتھ کاٹ کر قوم کو ٹنڈا نہیں کیا جاسکتا…! یہ افکار، یہ پالیسی اور فرمان یورپ یا امریکہ کے ترقی یافتہ ماڈرن ملک کے صدر کے نہیں ،بلکہ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے صدر کے ہیں ۔امریکہ میں تو نیوکنزرویٹو (نئی قدامت پرست عیسائی) گورنمنٹ دوبارہ برسراقتدار آئی ہے اور وہاں دین مسیح علیہ السلام کی تجدید ہورہی ہے اور کروسیڈ کے نام پر اسلامی ملکوں کے خلاف صلیبی جنگ جاری ہے۔ دوسری طرف روشن خیالی اور ماڈرن ازم کی بگ ٹٹ دوڑ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی موجودہ حکومت اور اس کے سربراہ یورپ اور امریکہ کوبھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں ۔ ان ملکوں کے اخلاق باختہ کلچر کو ترقی پسندی اور روشن خیالی کا معاشرہ سمجھتے ہیں ۔ سپورٹس پاکستان کا دوسرا مذہب بن چکا ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو دین کے بنیادی عقائد کا اتنا علم نہیں جتنا کہ وہ ساری دنیا کے کرکٹ کھلاڑیوں کے پورے شجرھٴ حسب نسب سے واقف ہیں ۔ نیکر پوش خواتین کے مقابلے، میراتھن مخلوط ریس کو نئی تہذیب کی نشانی بنا دیا گیا ہے۔ ان سے اختلاف کرنے والے انتہاپسند اور ’ملا‘ ہیں ۔