کتاب: محدث شمارہ 288 - صفحہ 19
اسے بہرصورت شریعت کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہوں گی، خواہ وہ دوسروں سے سوال ہی کرے … قرآن کریم میں ہے :
﴿فَسْئَلُوْا أَهْلَ الذِّكْرِ إنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾34
”اگر تمہیں خود علم نہ ہو تو اہل معرفت و حافظہ سے پوچھ لو۔“
چنانچہ اس سلسلہ میں جیسے اہل علم سے پوچھنے کی بات ہے، ویسے ہی اہل علم سے تبادلہ خیالات کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ کیونکہ ﴿وَفَوْقَ كُلِّ ذِىْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ﴾35”ہر علم والے سے اوپر کوئی دوسرا عالم ہے۔“ کی رو سے علم کی بے شمار قسمیں او رجہتیں ہیں ، لہٰذا مذاکراتِ علمیہ سے انشراحِ صدر حاصل ہوتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب اور دیگر خلفاء راشدین کا اپنے ساتھی علماء صحابہ رضی اللہ عنہم سے مسائل پر تبادلہ خیالات اسی نوعیت کا تھا جسے آج کل من مانی تعبیر سے ’مجلس شوریٰ کا اجتہاد‘ باور کرایا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس نظریہ کے حاملین کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مانعینِ زکوٰة سے جنگ اور جنگ ِیمامہ میں حضرت اسامہ بن زید کی بحیثیت ِسالار لشکر روانگی ایسے فیصلوں کی تاویل کرنی پڑتی ہے کہ یہ نصوصِ شرعیہ کی تعمیل تھی۔ حالانکہ اصل بات انشراحِ صدر کی تھی۔ مسئلہ خواہ نص کا ہو یااجتہاد کا ، اگر یہ طے شدہ شرعی اُمور ہوتے تو دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کبھی بھی اس کے خلاف کوئی دوسرا مشورہ نہ دیتے،کیونکہ تعمیل شریعت کا جذبہ ان میں بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ہاں جب خلیفہ نے ان مسائل میں اپنا اطمینان ایک عزمِ صمیم کی صورت میں ظاہر کردیا تو یہ صحابہ رضی اللہ عنہم نہ صرف خاموش ہوگئے بلکہ اس کے فیصلہ میں ان سے بھرپور تعاون بھی کیا۔
اطاعت ِامیر اور فقہی تقلید
چنانچہ یہاں معاملہ کی ایک دوسری نوعیت یہ بھی سامنے آتی ہے کہ خلیفہ کسی شرعی حکم کے بارے میں شرحِ صدر کے ساتھ جب کوئی فیصلہ کرلیتا ہے تو اُمت کو اس کی اطاعت کرنی پڑتی ہے کہ اس کی حیثیت شریعت پر عملدرآمد کرنے کرانے کی ہے۔ تاہم اگر مسئلہ میں اجتہادی اختلاف سامنے آجائے تو خلیفہ کی ہر دو حیثیتیں الگ الگ واضح ہوجاتی ہیں ۔جس کی مثال حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے اختلاف سے دی جاسکتی ہے کہ جمع مال