کتاب: محدث شمارہ 288 - صفحہ 17
طرزِ حکومت سے ہے جو ایک الگ موضوع ہے۔تاہم شریعت و اجتہاد کے بارے میں خلافت کے اختیارات پر ہم اگلے نکتے میں گفتگو کرتے ہیں ۔
اولی الامر کے احکامات کی پابندی
(3) اس موضوع پر فیصلہ کن نکتہ یہی تیسرا ہے کہ کیا اولیٰ الامر کے احکامات کی پابندی کو تقلید کہا جاسکتا ہے؟ دراصل پارلیمنٹ کی طرف سے شریعت کی تعبیر یا شریعت کی قانون سازی اور حکومت و عوام پراس کی لازمی حیثیت ہی وہ بنیاد ہے کہ یہ اختیارات اگر خلیفہ یا امام کو حاصل ہیں تو جدید زمانہ میں پارلیمنٹ کو اس کے قائم مقام ہوکر یہی اختیارات مل سکتے ہیں ۔ اس لئے پہلے ہم اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ خلیفہ کی اطاعت اور فقہ و اجتہاد کا فرق کیا ہے؟ … قرآن کریم میں اولی الامر کی اطاعت کے بارے میں یہ آیت معروف ہے :
﴿يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا أَطِيْعُوْا اللهَ وَأَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ وَأُوْلِيْ الأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فَرُدُّوْه إلَى اللهِ وَالرَّسُوْلِ إنْ كُنْتُمْ تُوٴمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌوَّأحْسَنُ تَاْوِيْلًا﴾31
”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو او راپنے میں سے صاحبانِ اختیار کی بھی … پھر اگر کسی معاملہ میں تمہارا باہمی نزاع ہوجائے تو اس معاملہ کو اللہ اور رسول کی طرف لے جاوٴ، اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہت اچھا اور انجام کے اعتبار سے بہت بہتر ہے۔“
اس آیت میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مستقل اطاعت کے علاوہ اولی الامر کے بارے میں دو باتوں کا ذکر ہوا ہے؛ ایک ان کی اطاعت، اور دوسرے ان سے نزاع کے موقع پر فیصلہ کے لئے اللہ اور رسول (یعنی کتاب و سنت) کی طرف رجوع … مقام غور ہے کہ اگر نزاع واختلاف میں بھی اولی الامر کی اطاعت فرض ہوتی تو کتاب و سنت کی طرف رجوع کاکچھ معنی ہی باقی نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ اُمت میں خلفا کے ساتھ مجتہدین کے جتنے بھی اختلافات ہوئے ہیں ، ان میں خلفا کو محض ان کے خلیفہ ہونے کی بنا پر کبھی بھی برحق قرار نہیں دیا گیا۔ بنوہاشم کے بنواُمیہ سے سیاسی اختلافات سے لے کر ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہ سمیت فقہاء سلف کے عباسی خلفا