کتاب: محدث شمارہ 288 - صفحہ 16
ہیں ۔ تاہم اندریں صورت اس خطرہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس سے روحِ اجتہاد بُری طرح مجروح بھی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اجتہاد کا اصل مقصود ’منشاء الٰہی کی تلاش‘ہوتا ہے،جبکہ اجتماعی فیصلوں میں مفاہمت اور رواداری پر جس طرح زور دیا جاتا ہے، اس سے بسا اوقات منشاء الٰہی پرلحاظ واحترام کی اقدار اثر انداز ہوتی ہیں ۔ اسی نکتہ کے ضمن میں دوسری بات یہ ملحوظ رہنی چاہئے کہ اجتماعی اجتہاد کی صرف وہ قسم حجت ہے جو ’اجماع‘کہلاتی ہے۔ اگرچہ اجماع کی تعریف سے لے کر اس کے انعقاد اور اس کی حجیت تک جملہ پہلو شدید اختلافی ہیں ، تاہم یہ بات اجماع کی حجیت تسلیم کرنے والوں کے ہاں متفقہ ہے کہ اجماع صرف کل اُمت کا معتبر ہے، کسی خاص علاقے کا نہیں ۔ (واضح رہے کہ مالکیہ اگر اہل مدینہ کے اجماع کی حجیت کو تسلیم کرتے ہیں تو اس کی وجوہ بالکل دوسری ہیں ) جبکہ ہمارے زیر بحث جو اجتہاد ہے وہ ایک خاص علاقے کی پارلیمنٹ کا ہے، جسے نہ اجماعِ اُمت ِمسلمہ کہا جاسکتا ہے او رنہ اس علاقے کے جملہ مجتہدین ہی اس میں جمع ہوتے ہیں ، حالانکہ تمام مجتہدین کی اجماع میں شرکت لازمی ہوتی ہے۔ اسی سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اجتماعی اجتہاد ؛ جسے اجماع کہتے ہیں ؛ کسی خاص ادارے کا فیصلہ یا رائے نہیں ہوتی، جبکہ پارلیمنٹ ایک ادارہ ہے جس کا زیادہ سے زیادہ تعلق اس مسئلہ سے ہے کہ حکومت شخصی کی بجائے ادارہ کے ہاتھ میں ہونی چاہئے۔ پھر حکومت شخصی (خلافت) ہو یا صدارتی اور پارلیمانی جمہوریت، پہلی صورت میں یہ نیابت ِرسول ہوتی ہے اور دوسری صورت (پارلیمانی یا صدارتی جمہوریت) میں بھی نمائندگی، دعوے کی حد تک بھی، اقتدار کی ہوتی ہے، منشا کی نہیں ! جیسا کہ اسمبلی کے بارے میں روسو کا مشہور قول ہے کہ "Power can be transmitted but not the will30" ”(نمائندگانِ جمہور کو ایک محدود مدت کیلئے) اقتدار منتقل ہوتا ہے، منشا ومرضی منتقل نہیں ہوتی!“ پس اس نکتہ کا بھی حاصل یہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی اجتہاد اور شے ہے، اور حکومت کا شخصی و جمہوری ہونا اور شے۔ رہا یہ سوال کہ خلافت اور جمہوریت جمع ہوسکتی ہیں ؟یعنی فرد کی بجائے منتخب نمائندگان کی جماعت خلافت کے منصب پر فائز ہوسکتی ہے؟ تو اس کا زیادہ ترتعلق