کتاب: محدث شمارہ 288 - صفحہ 15
لیبیا، سوڈان اور پاکستان میں اسلامی حدود و تعزیرات اور قصاص ودیت وغیرہ کے علاوہ دوسرے اسلامی ممالک میں سرکاری سطح پر کسی دفعہ وار مدوّن مجموعہ قانون کی مثال نہیں ملتی۔ تقریباً پون صدی سے سعودی عرب شریعت کے نظامِ تعزیرات کو ہی اپنا کر دنیا بھر کے ترقی یافتہ معاشروں کو یہ چیلنج پیش کر رہا ہے کہ امن وامان صرف اسلامی شریعت کی عمل داری سے ہی ممکن ہے۔ سعودی حکومت کو تو اقوام متحدہ کا رکن بننے کے لیے بھی کسی ’مسودہ قانون‘ کی ضرورت نہ تھی بلکہ اس نے وہاں بھی چند سال قبل تک صرف ’قرآنِ کریم‘ کو اپنے ’قانونِ مملکت‘ کی حیثیت سے پیش کر رکھا تھا۔ البتہ دس بارہ سال قبل سعودی عرب نے دیگر دساتیر کی طرح اپنا بنیادی دستوری ڈھانچہ29 تیار کیا ہے جس کے تحت مجلس شوریٰ کی تشکیل بھی ہوئی۔ امسال وہاں بلدیاتی سطح پر انتخابات بھی منعقد ہوئے ہیں ۔ تجربہ ہی یہ بتائے گا کہ مستقبل کا سعودی عرب ماضی سے کتنا بہتر ثابت ہوتاہے؟
اگرچہ تاریخ یہ بتلاتی ہے کہ اسلامی قانون کی تدوین کا ایسا تجربہ ماضی میں عموماً ناکام ثابت ہوا ہے بلکہ کئی کوششوں کا انجام ہی عبرتناک ہے۔ خلافت ِعثمانیہ کے مجلہ عدلیہ کی شکل پر مصر میں مختلف مکاتب ِفکر سے متعلق علما اور ماہرین قانون کی چہ سالہ مشترکہ مساعی سے 1920ء میں ایک مجموعہ قانون تیار ہوا تھا، لیکن اس کاجو حشرہوا، وہ بڑا المناک ہے ۔ یہ مجموعہ اتنی تنقید کا شکار ہوا کہ شاہ مصر نے اسے سرد خانہ میں ڈال کر ملک میں فرانسیسی قانون نافذ کر دیا۔ پاکستان میں اسلامی حدوداور قصاص ودیت کی تقنین بھی ہمارے سامنے ہے جو ناقص ہونے کے باوصف لادین حلقوں کو اسلامی شریعت کے خلاف اعتراضات کے مواقع مہیا کرتی رہتی ہے۔
اجتماعی اجتہاد بصورتِ پارلیمانی اجتہاد
(2)دوسرا نکتہ، انفرادی اور اجتماعی تدوین کے تقابل اور پھر انفرادی اجتہاد سے پارلیمانی اجتہاد کے ارتقا کا ہے۔ ا س سلسلہ میں ہم یہ گزارش کریں گے کہ اگرچہ بعض پہلووٴں سے اجتماعی اجتہاد جدید دور میں اہم تر نظر آتا ہے کہ اس کی بدولت قرآن و سنت کی بصیرت رکھنے والوں کے علاوہ معاشرتی علوم کے حامل اور جدید قانون کے ماہرین بھی اس میں شامل ہوسکتے