کتاب: محدث شمارہ 288 - صفحہ 14
البتہ اسلامی حکومتوں کے زوال کے آخری دور میں مغل تاجدار اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے علما کی ایک جماعت کے ترتیب دادہ مجموعہ کو قانونی صورت میں اختیار کیا جو’فتاویٰ عالمگیری‘ کے نام سے معروف ہے۔ لیکن ’فتاویٰ‘ کا لفظ خود وضاحت کر رہا ہے کہ اس کی حیثیت بھی ’معاون قانون‘ کی تھی کیونکہ فتاویٰ ان شرعی آرا کو کہتے ہیں جن سے ایک حاکم یا قاضی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے میں مدد لیتا ہے۔ اس سے قبل شرعی رائے کا یہی کام حکومت کا شعبہٴ افتا کیا کرتاتھا۔ آج کل اس کی مثال ہماری عدالتوں میں قانونی معاونین کی ہے۔ ایسے ہی ہمارے ہاں اعلیٰ عدالتوں کے فیصلہ جات جو مختلف مجموعوں PLJ, PLD وغیرہ ناموں سے برابر چھپتے رہتے ہیں ، ان کے جوہر قانونی نکات(Citations)قانون کا حصہ شمار ہوتے ہیں ، لیکن اسلامی شریعت میں اجتہاد شریعت کے اطلاق ووسعت میں تو بھرپور کام آتا ہے، بذاتہ شریعت کا حصہ نہیں ہوتا۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وحی اور انسانی کاوشوں میں فرق ہے، لہٰذا اجتماعی اجتہاد بھی کتاب وسنت سے فروتر چیز ہے۔
تاہم اُنیسویں صدی سے یورپ کی تقلید٭ نے مسلمانوں کے اندر یہ احساس اُجاگر کیا کہ وضعی قانون کی طرح دفعہ وار اسلامی قانون کی تدوین کرنی چاہیے۔ چنانچہ سب سے پہلا مدوّن مجموعہ 1876ء میں خلافت عثمانیہ ترکی نے مجلة الأحكام العدلية کے نام سے اپنایاجو صرف مروّ جہ دیوانی قانون کا ایک حصہ ہے۔ باقی رہا فوجداری قانون کے علاوہ مسلمانوں کا اسلام کی بنیاد پر عائلی اور شخصی قانون تو اگرچہ اس کے لیے بیسویں صدی عیسوی میں مختلف مجموعہ جات تیار کرنے کی مثالیں ملتی ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سی مسلم تو کیا غیر مسلم ریاستوں میں بھی جن میں غیر منقسم ہند و پاک کا ڈھائی سو سالہ دور بھی شامل ہے، میں غیر مدوّن عائلی قانون نہ صرف نافذ رہا بلکہ اس کے مطابق نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم ہندو اور انگریز وکلا بھی قانونی رہنمائی مہیا کرتے رہے اور غیر مسلم جج صاحبان بھی فیصلے کرتے رہے ۔
واضح رہے کہ اسلام کے فوجداری قانونی نظام کے اہم حصہ سزاوٴں (تعزیرات) کے لیے