کتاب: محدث شمارہ 288 - صفحہ 13
نئے پیدا شدہ مسائل پر بصیرت افروز رہنمائی کاکام بھی دے رہی ہیں اور نجی سطح پر علما اور مفتی حضرات انہی سے در پیش مسائل کا جواب دیتے بھی رہتے ہیں ۔ آخر نجی طور پر یہ کام پہلے چل رہا ہے تو سرکاری سطح پرکیوں نہیں چل سکتا؟ ہمارے ہاں اس مقصد کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت جیسے آئینی ادارے موجود ہیں جن سے مذکورہ مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔ دوسری و جہ یہ ہے کہ ذیلی اور مدد گار قانون میں اگر اتفاقِ رائے ممکن ہو تو یہ الہامی قانون (کتاب وسنت) کے قائم مقام ہوگا،لیکن یہ حقیقت ہے کہ براہ راست خدائی رہنمائی (نبوت) کے سوا انسانی سوچ پہلو دار ہوتی ہے۔ اس میں اتنی جامعیت اور ابدیت نہیں ہو سکتی جو خدائی قانون کی جگہ لے سکے۔ بالفرض اگر ایسا پہلو دار قانون مستقل دستور وقانون قرار دے دیا جائے تو یہ ترقی پذیر معاشرے کے لیے پاوٴں کی زنجیر ثابت ہو گا۔ تیسری و جہ یہ ہے کہ کتاب وسنت کے علاوہ کوئی مدوّن قانون متفقہ بنایا ہی نہیں جاسکتا۔کتاب وسنت کی تعبیر میں اختلاف کے کچھ پہلو واقعی ضرر رساں ہیں ،لیکن اس اختلاف کا ایک روشن پہلو قانون کی لچک دار اور ارتقا پذیر شکل کو باقی رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ اس لیے بیک وقت یہ دوفائدوں کا حامل ہے؛در پیش مسئلہ میں ’فتویٰ‘ کی حیثیت سے اور آئندہ کے مسائل میں قانونی رہنما کی حیثیت سے۔ پھر جب مستقل قانونی حیثیت سے کتاب اللہ کے لیے سنت ِرسول اللہ کی صورت میں ایک دائمی تعبیر اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوۂ حسنہ (عملی نمونہ) کی صورت میں موجود ہے تو اس ابدی تعبیر کو اپنانے کے دوران جزوی مسائل میں اجتہادات کا جواختلاف رونما ہوتا ہے، اس کاضرر رساں پہلو مزید کمزور پڑ جاتا ہے۔ چوتھی بات جس کا تعلق اس بارے میں تاریخی تجزیے سے ہے، یہ ہے کہ مسلمانوں کی چودہ صد سالہ تاریخ میں عموماً کتاب وسنت ہی اسلامی ریاستوں کادستور وقانون رہاہے۔ اگر کبھی جزئیات میں کثرتِ اختلافِ آرا یا بعض سازشوں کے سد باب کے لیے کسی مدوّن کتاب کو دستورِ مملکت بنانے کا احساس ہوا بھی تو اختلافِ اُمت نے اسے گوارا نہ کیا،جیسا کہ اس کی تفصیلا ت پیچھے گزر چکی ہیں ۔