کتاب: محدث شمارہ 288 - صفحہ 12
ایک اعتبار سے مجتہد کی اپنی ذات کے لئے، یا قاضی کے زیرسماعت قضیے کے فیصلے کی حیثیت سے فریقین کے لئے تو واجب التعمیل ہوتا ہے، تاہم وہ شریعت نہیں ہوتا۔ شریعت صرف وحی الٰہی کا نام ہے، جبکہ اجتہاد، فہم وحی کی قسم ہے، فی نفسہ وحی نہیں ۔ پھرتدوین تو صرف ایک فنی ترتیب ہے، جسے خالص فنی اعتبار سے اجتہاد کہنا بھی درست نہ ہوگا…!! حاصل یہ ہے کہ اجتہاد، تدوین اور تقنین الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں او ران کوباہم خلط ملط کرنے سے موضوعِ زیر بحث اختلافی بن رہا ہے، ورنہ اصل مسئلہ صرف اس قدر ہے کہ وحی (شریعت) کے علاوہ اہل علم کے لئے کسی قدیم یا جدید اجتہاد کی تقلید ضروری ہے یا نہیں ؟ اور علیٰ و جہ البصیرت ہمارا جواب نفی میں ہے … لہٰذا ائمہ سلف کی تقلید کی مخالفت کرنے والوں کو یہ زیبا نہیں کہ وہ جدید انفرادی یا اجتماعی اجتہاد کی تقلید کی دعوت دیں ۔ جہاں تک اسلامی قانون کی تدوین کا تعلق ہے، اوّل تو یہ چیز ہی بنیادی طور پر غلط ہے کہ کتاب وسنت جیسے ’دستورِ زندگی‘ کے علاوہ کسی دوسرے مدوّن قانون کو اسلامی ریاست کا مستقل دستور قانون قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ ایسے کسی بھی مدوّن قانون کی حیثیت ذیلی یا مددگار قانون کی ہو گی، کیونکہ مستقل حیثیت صرف کتاب وسنت کو ہی حاصل ہے جو ابدی دستور وقانون ہے، اسی لیے اس کی تدوین بھی ایسے انداز کی ہے جو زندگی کی فطری رہنمائی سے مناسب ہے۔ باقی قانون خواہ انسانی ذہنوں کی اختراع ہوں یا کتاب وسنت سے انسانی سوچوں کا حاصل، وہ اپنی طرز کے معاشروں میں مقامی اور ہنگامی رہنما قانون توقرار دیے جا سکتے ہیں ، لیکن اسلامی ریاست جیسے مستقل ادارے کا پائیدار قانون نہیں بن سکتے۔ تا ہم کسی وقتی ضرورت کے پیش نظر ’تدوین‘ کو بڑی اہمیت بھی دے دی جائے تو الحمد للہ اس سلسلہ میں کسی سر دردی کی ضرورت نہیں ۔ ہمارے ہاں محدثانہ اورمخصوص فقیہانہ انداز کے اتنے مدوّن مجموعہ جات موجود ہیں کہ ان کو گننے اور صرف تعارف کرانے کے لیے بیسیوں جلدوں پر مشتمل کتابیں تیار کی جا سکتی ہیں اور بفضلہ تعالیٰ ایسے بیش قیمت تذکرے دنیا بھر کی مشہور زبانوں میں بھی موجود ہیں ۔ فقہ وقانون کے تقابلی مطالعہ کی کتب تو جدید معاشروں میں