کتاب: محدث شمارہ 288 - صفحہ 11
جب جنرل محمد ضیاء الحق نے مسلمانوں کے لئے نظامِ زکوٰة کا اعلان کیا تو فقہ جعفری والے مخالفت پر تل گئے۔ اس پر جنرل صاحب کو مجبوراً یہ کہناپڑا کہ ہمارا یہ اعلان کوئی حکم الٰہی تو نہ تھا، جو بدلا نہ جاسکے۔ چنانچہ اس آرڈی نینس میں تبدیلی کرکے شیعہ حضرات کو نظامِ زکوٰة سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ اب سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے ایک فیصلہ کے ذریعہ ملک میں مروّج تمام فقہوں کے حاملین کو بھی ایسے ڈیکلریشن کا اختیار دے دیا ہے۔ حالانکہ سوچنے کی با ت ہے، اگر یہ حکم الٰہی نہ تھا تو پھر کس اختیار کی بنا پر سنی مسلمانوں پر نظامِ زکوٰة نافذ کیا گیا؟ حتیٰ کہ وہ بے چارے حکومت کی طرف سے زکوٰة کی کٹوتی کے علاوہ مروّجہ (ٹیکس) بھی ادا کرنے پر مجبور ہیں ۔
انتہائی سیدھی اور آسان سی بات یہ ہے کہ انسان شریعت سازی کا نہ تو مکلف ہے اور نہ ہی یہ اس کے بس کا روگ ہے بلکہ تشریع کا حق صرف اور صرف اللہ ربّ العزت کو حاصل ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے شریعت نازل فرمائی ہے، جو مرتب ومدوّن موجود ہے اور جس کی حفاظت ِابدی کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ چنانچہ یہ بغیر کسی تغیر و تبدل او رکمی بیشی کے تاقیامت نافذ ہے۔ باقی رہے قرآن و حدیث کے علاوہ فقہ اور قانونِ شریعت کے جدید مجموعے تو وہ سب تدوینی مساعی کے علاوہ وحی سے ورے انسانی اجتہادات ہوسکتے ہیں جو مختلف بھی ہوتے ہیں اور متعدد بھی۔ اسی طرح بہت سے اجتہادات، معاملہ کی نوعیت یا حالات کی تبدیلی سے بدل بھی جاتے ہیں ۔ چنانچہ اُن کی حیثیت مستقل نہیں ہوسکتی۔ پس فقہ و اجتہاد پر تشریع کا اطلاق گویا مداہنت ہے، کیونکہ شریعت مکمل ہوچکی ہے اور تشریع کا یہ اختیار خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم تک کوبھی نہ تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مہر کے تعین کے بارے میں ایک عورت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو برسرعام ٹوکتی ہے اور آپ رضی اللہ عنہ بُرا منانے کی بجائے اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ اس کی مزید تفصیل ہم تیسرے نکتے کے ذیل میں بیان کریں گے۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ قانونِ شریعت کے نام پر کوئی بھی اعلیٰ سے اعلیٰ کوشش فقہ و اجتہاد کی قبیل سے ہوتی ہے، جبکہ اجتہاد سے مراد حکم الٰہی کی تلاش اور اس کا اطلاق ہے، لہٰذاوہ