کتاب: محدث شمارہ 288 - صفحہ 10
اسی طرح انفرادی طور پر بھی بعض مفکرین نے اس موضوع پر اپنی تجاویز تحریری شکل میں پیش کی ہیں جوکتابی شکل میں بھی طبع شدہ موجود ہیں ، جبکہ اجتماعی سطح پر خاص اپنے ملک کی حد تک جن لوگوں نے یہ کوششیں کی ہیں ۔ ان میں سے قابل ذکر درج ذیل ہیں :
٭ جامعہ ازہر وغیرہ کی علمی مجالس کی طرف سے مرتب قانونِ شریعت کے علاوہ ڈاکٹر مصطفی سباعی کی ایک سکیم کے مطابق مصر میں فقہی انسائیکلو پیڈیا کی تدوین ہوئی۔ (ایسے بہت سے مسّوداتِ قانون کا اُردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے)
٭ اُردن میں شریعت کے سول لاء کو 15 سال میں مدوّن کیا گیا۔
٭ یمن میں مجلة الأحكام العدلية کی طرز پر ایک مجموعہ قوانین شریعت تیار کیا گیا۔
٭ جمہورية الليبية الشعبية کے مسوداتِ قوانین ”نظام التجريم والعقاب“
٭ متحدہ عرب امارات (ابوظہبی) میں اسی طرح کا ایک شرعی مجموعہ قوانین رئیس القضاة احمد بن عبدالعزیز آل مبارک کی زیرنگرانی تیار ہوتا رہا ہے ،جس کی پندرہ، سولہ جلدوں کا اسّی کی دہائی میں راقم بذاتِ خود مشاہدہ کرچکاہے ۔
٭ کویت کی وزارتِ اوقاف کا تیارکردہ 43 جلدوں میں مایہ ناز فقہی انسائیکلوپیڈیا
٭ پاکستان کی مشاورتی کونسل (اسلامی نظریاتی کونسل) بھی تقریباً نصف صدی سے یہی کام کررہی ہے۔
٭ سلطنت ِترکی میں سقوطِ خلافت سے قبل مصر کو ایسی کوششوں میں سبقت حاصل ہے۔ چنانچہ مصر نے 1914ء سے 1920ء تک ایک مجموعہ تیا رکرلیا تھا۔ اگرچہ منظر عام پر آنے کے بعد وہ اختلافات کا اس قدر شکار ہوا کہ اسے سردخانہ میں ڈال دیا گیا۔
ہماری نظر میں مذکورہ بالا مساعی تدوین فقہ جدید کی حد تک قابل قدر ہیں لیکن اگر مقصد ’تشریع‘ یعنی شریعت سازی ہو تو یہ تقنین اس معیار کی ہرگز نہیں کہ انہیں تغیر وتبدل سے محفوظ رکھ کر حتمی قانون کی حیثیت دی جاسکے۔ اس کی ایک ادنیٰ سی مثال میں پاکستان میں جنرل محمد ضیاء الحق کی نفاذِ شریعت کی کوششوں سے پیش کرتا ہوں :