کتاب: محدث شمارہ 287 - صفحہ 9
عقل سے از خود ہوجاتا ہے۔ اس سے غالباً آپ غلام احمد پرویز کے پیش کردہ نظریہ پر تبصرہ کررہے تھے جو اُنہوں نے مختلف خلفا کے اوّليات کے حوالہ سے پیش کیا ہے۔ آپ نے گھنٹہ بھر کے خطاب میں متعدد نازک مسائل پر محتاط لب ولہجہ اپناتے ہوئے اپنے بعض نظریات کی تائید میں اشارتاً گفتگو کی۔
توسیعی خطابات کی پہلی نشست کی صدارت جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی کررہے تھے۔ تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر غازی نے جاوید احمدغامدی کی بہت سی آرا کو بحث طلب قرار دیا اور کھا کہ آپ بذاتِ خود ایک مستقل مکتب ِفکر کے بانی٭ ہیں۔ انہوں نے قرآنی آیات کی صرف ایک ہی تفسیر ممکن ہونے کے دعوے کو بھی علما کی نظر میں اجنبی قرار دیتے ہوئے یہ سوال اُٹھایا کہ اگر یہ مان لیا جائے تو پھر آج تک مفسرین قرآنِ کریم کی کئی آیات کی متنوع تفسیریں کیوں کرتے چلے آرہے ہیں؟
پہلے روز کی نشستوں میں اجتہاد کے حوالے سے تو بہت سی باتیں کہی گئیں لیکن اجتہاد کے متوازن فکر کے علاوہ اس میں ’اجتماعیت‘ کے تصور کو زیادہ نکھارا نہ جاسکا۔ اجتماعی اجتہاد کی جو خصوصیت اسے عام اجتہاد سے ممتاز کرتی ہے، وہ اجتماعیت کا وصف ہے اور اس اجتماعیت کے لوازمات پر گفتگو ہونا اس سیمینار کی ضرورت تھی، اور انہی پہلووں پر بحث مباحثہ کے ذریعے مل جل کر اسلامی موقف کو نکھارنے میں مدد ملتی۔ (اس سلسلے میں راقم کا مختصر مضمون ملاحظہ فرمائیں)
راقم الحروف کواس سے قبل مختلف بین الاقوامی نَدوات میں شرکت کا موقع ملا ہے، ایسے سیمیناروں میں آغاز میں ہی مطلوبہ موضوع کی حدود کا تعین کیا جاتا ہے، بالخصوص جبکہ وہ سابقہ لٹریچر میں زیادہ متعارف نہ ہو۔ ایسے ہی ان سیمیناروں میں خطابات کے بعد حاضرین میں سے فاضل مبصرین کو بھی دعوت دی جاتی ہے اور وہ پیش کردہ خطاب کے تشنہ وضاحت پہلووں کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس موضوع پر اپنا نقطہ نظربھی پیش کرتے ہیں۔ گویا اس نوعیت کے سیمیناروں میں مقررین کے علاوہ سامعین کی نمائندگی بھی شامل ہوتی ہے کیونکہ
٭ مستقل مکتب ِفکر کا بانی ہونا کیا جملہ توصیف ہے یا کچھ اور ؟ غامدی مکتب ِفکرنے اس دور میں جن افکار ونظریات کو پروان چڑھایا ہے وہ سرسید، اسلم جیراجپوری اور پرویز کے افکار کا ہی تسلسل ہیں۔ غور کریں کہ اس مکتب ِفکر نے موجودہ دور میں اسلام کی خدمت کی ہے یا مسلماتِ اسلامیہ سے انحراف کا رستہ اپنایا ہے؟