کتاب: محدث شمارہ 287 - صفحہ 8
گورایہ کی کتاب ’اقبال اور اجتہاد ‘ میں پیش کردہ فلسفے پر تنقید کرتے ہوئے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی ملی خدمات کے بھرپور اعتراف کے باوجود اس بارے میں علامہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کو کمزور قرار دیا اور کہا کہ سیدسلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ بعض اقتباسات کی روشنی میں یہ پتہ چلتا ہے کہ علامہ مرحوم نے اس نقطہ نظر سے بعد میں رجوع کرلیا تھا۔ حافظ صاحب نے اجتہاد کا حق عام اراکین پارلیمنٹ کی بجائے اسلامی درک و بصیرت رکھنے والے ماہر علما کرام کے لئے مخصوص کرنے پر زور دیا۔
حافظ صلاح الدین یوسف صاحب نے اپنے خطاب میں یہ امر خوش آئند قرار دیاکہ ایک وہ وقت تھا جب ادارہ تحقیقاتِ اسلامی میں تجدد پسند حضرات کی کھپت زیادھ تھی لیکن اب الحمدللہ صورتِ حال بہت مختلف ہے اور ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی کے رفقا بہت اچھا کام کر رہے ہیں لیکن ملک میں اب بھی ایسے حضرات موجود ہیں جو ایک طرف معروف مسلماتِ اسلامیہ مثلاً حد ِرجم، معراجِ جسمانی، نزولِ عیسیٰ علیہ السلام ، ظہورِ امام مہدی وغیرہ کے منکر ہیں تو دوسری طرف یہ گروہ طوائف کلچر ( رقص وسرود اور گانے بجانے )کو شریعت اسلامیہ کی رو سے پسندیدہ قرار دے رہا ہے۔ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے سلیم الفکر منتظمین کی طرف سے ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ اس خطاب کے دوران جاوید احمد غامدی بھی موجود تھے۔
سیمینارکے توسیعی خطابات میں جناب جاوید احمد غامدی کا خطاب سب سے پہلا تھا۔ انہوں نے علمی اصطلاحات کی نئی تعبیروں کی روایت برقرار رکھتے ہوئے اجتہاد کی تعریف میں بھی عام اہل علم سے جدا گانہ نقطہ نظر اپنایا۔ اُنہوں نے معاذ بن جبل کی مشہور حدیث میں وارد لفظ اَجتهد برأيي سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ زندگی کے بہت سے پہلووں پر شریعت کی رہنمائی موجود نہیں ہے، اس لئے وہاں پر انسان کو اپنی عقل ورائے سے کام لینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن قطعی الثبوت ہونے کے علاوہ قطعی الدلالہ بھی ہے، اس کے لئے آپ نے مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ کے قول: القرآن لايحتمل إلا تاويلا واحدا کا حوالہ دیا اور کہا کہ قرآن ہر مسئلہ کے بارے میں میزان کی حیثیت رکھتا ہے۔ کلام کی تفہیم کے حوالے سے جناب جاوید غامدی نے کہا کہ بعض چیزیں متکلم کے ذہن میں کلام کے وقت ہی مستثنیٰ ہوتی ہیں، اس لئے ان کو خارج سمجھنے میں کوئی زیادہ تردّد نہیں کرنا چاہئے اور ایسے مستثنیات کا تعین