کتاب: محدث شمارہ 287 - صفحہ 78
قاضی کیلئے اجتہادی صلاحیت ضروری ہے، لیکن جدید جج حضرات قرآن وسنت کی مہارت حاصل نہ ہونے کے باوجود دفعہ وار قانون سازی کے بل بوتے پر اسلامی شریعت کی تطبیق کا حق اپنے ہاتھوں میں لے کر عوام کو شریعت کی وسعتوں سے محروم کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ قانون سازی ایک مستقل موضوع ہے، جس پر عالم اسلام خصوصاً عالم عرب میں نقطہ نظر پائے جاتے ہیں۔ ہماری نظر میں استعماری دور میں اسلامی ذہنوں میں جڑ پکڑنے والا یہ مغرب سے درآمدہ تصور ہے۔ شریعت کا نفاذ کتاب وسنت کے ذریعے ہی بہتر ہوسکتا ہے اور اللہ نے بھی قاضیوں کو کئی آیات میں ما أنزل ﷲ سے فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے : ﴿ وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ ﷲُ فَأُوْلـٰئِکَ ہُمُ الْکفِرُوْنَ﴾ (المائدۃ : ۴۶) ’’ او رجو قاضی ما أنزل ﷲ کے ساتھ فیصلہ نہ کرے، وہ کافر ہے۔‘‘ ﴿ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَا أَنْزَلَ ﷲُ وَلاَ تَتَّبِعَْ أَہْوَائَہُمْ وَاحْذَرْہُمْ أَنْ یَّفْتِنُوْکَعَنْ بَعْضِ مَا اَنْزَلَ ﷲُ إِلَیْکَ ﴾ (المائدۃ : ۴۳) ’’ اے نبی! ان کے مابین ما أنزل ﷲ کے ساتھ ہی فیصلہ فرمائیے، انکی خواہشات کی پیروی نہ کریں اوربچیں اس بات سے کہ یہ ما أنزل ﷲ کے بارے میں آپ کو فتنہ میں نہ ڈال دیں۔‘‘ ما أنزل ﷲ صرف کتاب وسنت ہی ہے، انسانوں کے بہترین فہم کی بناپر حاصل ہونے والی فقہ بھی ما أنزل ﷲ کا کلی مصداق نہیں کیونکہ اجتہاد میں تو خطا وصواب کا احتمال ہوتا ہے۔ اور ما أنزل ﷲسے براہِ راست استفادہ قرآن وحدیث کا ماہر ہی کرسکتا ہے۔ زیر نظر موضوع سے قانون سازی کا تعلق اتنا ہی ہے کہ اجتماعی اجتہاد کی وہ صورتیں جن کا مقصد قانون سازی کرنا ہے، وہ آغاز میں طریقہ کار کے جبر اور بعد میں نفاذ کے جبر کی بنا پر اسلامی شریعت میں مستحسن نہیں کہی جاسکتیں۔ اس لئے ’اجتماعی اجتہاد‘ کے تحت اگر ان نوعیت کی قانون ساز اداروںکو بھی ذکر کیا جائے تو اس فکری جبر کا مداوا ہونا اور ایک متوازن موقف کا تذکرہ اور اس کی حدود پر بحث مباحثہ انتہائی ضروری ہے۔