کتاب: محدث شمارہ 287 - صفحہ 7
شامل ہیں۔ جامعہ اسلامیہ امدادیہ، فیصل آباد کے اُستاذ مولانا محمد زاہد نے صحابہ رضی اللہ عنہم ،تابعین رحمۃ اللہ علیہم اور ائمہ اسلاف رحمۃ اللہ علیہم کے ادوارمیں تبادلہ خیال کے متعدد واقعات کو ’اجتماعی اجتہاد‘ قراردیا۔ اجتماعی اجتہاد میں قابل لحاظ اُمور مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی نے اپنے خطاب کا آغاز ہی اس بات سے کیا کہ اجتماعی کام ہمیشہ انفرادی محنت سے بڑھ کر مفید اور پہلودار ہوتا ہے اور اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ البتہ مولانا نے اپنے خطاب میں شریعت اور فقہ کا فرق کرتے ہوئے کتاب وسنت سے مستنبط فقہ و اجتہاد (خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی)کے بارے میں اس امر پر روشنی ڈالی کہ کیا ایسا اجتہاد شریعت (کتاب وسنت) کے قائم مقام ہوسکتا ہے؟ آپ نے کہا کہ ماضی قریب میں مسلمان حکومتوں کی وہ مساعی جن کے ذریعے شریعت کی جزوی قانون سازی کرکے اسے نافذ کرنے کا دعویٰ کیا گیا، کو اجتماعی اجتہادکی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ تھوڑی مدت میں ہی یہ قوانین برابر بدلتے رہے۔ بدلتی ہوئی چیز کو اتھارٹی کیسے قرار دیا جاسکتاہے؟ اُنہوں نے زور دے کر کہا کہ کیا انسان الہامی کلام کو اپنے الفاظ میں منتقل کرکے بہتر قانون سازی کرنے پر قدرت رکھتا ہے؟حاکم ہو یاقاضی اورمفتی، قرآن کی رو سے سب ما أنزل اللّٰه سے فیصلہ کرنے کے ہی پابند ہیں۔ جب یہ لوگ انسانوں کی تعبیر یا ان کے وضع کردہ قوانین سے فیصلہ کریں گے تویہ قوانین ما أنزل اللّٰه کا حقیقی مصداق نہیں بن سکتے،خواہ ایسی فقہ کو شریعت(کتاب وسنت)کی روشنی میں ہی تیار کیا گیا ہوکیونکہ ایسا اجتہاد بھرحال فقہ ہوگاجس میں تعدد لازمی ہوتا ہے جبکہ ’محمدی شریعت‘ ایک ہے۔ اس میں احکام کا تنوع تو ہوسکتا ہے، تعدد واختلاف محال ہے۔ اُنہوں نے پاکستان میں نافذ اسلامی قوانین (حدود و قصاص) کی بعض کوتاہیوں کو مثالوں سے واضح کیا کہ شریعت ِاسلامیہ کو انسانی الفاظ میں ڈھال لینے کی بنا پر اس کی تطبیق میں کیسی مشکلیں پیدا ہوجاتی ہیں بلکہ بہت سی وسعتوں سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ حافظ صلاح الدین یوسف نے اپنے مقالے میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے تصور ’پارلیمانی اجتہاد‘ کا تفصیل سے جائزہ لیا۔اس سلسلے میں اُنہوں نے ترکی کی گرینڈ نیشنل اسمبلی کے مزعومہ اجتہادات اور اتاترک ازم کے مضراثرات کی بھی نشاندہی کی۔اُنہوں نے ڈاکٹر محمد یوسف