کتاب: محدث شمارہ 287 - صفحہ 6
اجتماعی اجتہاد بتاتے ہوئے اسیرانِ بدر ، صلح حدیبیہ، واقعہ افک کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشاورت کو بھی اسی قبیل سے قراردیا۔ البتہ ان حضرات نے اس امر کی نشاندہی کی ضرورت محسوس نہ کی کہ مذکورہ بالا مشاورت کا زیادہ تر تعلق دنیا کے تدبیری اُمور سے ہے، ان میں الہامی ہدایت سے استنباط جسے ’اجتہاد‘ کہا جاتا ہے، کا عنصر بہت کم ہے۔یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ کیا مجرد ’مشاورت‘٭ شرعی اجتہاد کی بنیاد بن سکتی ہے یا اسے مصادرِفقہ میں شامل کیا جا سکتا ہے ؟ خلفاء ِاربعہ رضی اللہ عنہم کے دور سے بھی اجتماعی اجتہاد کی کئی مثالیں پیش کی گئیں جن میں لشکر ِاُسامہ کی روانگی، منکرین زکوٰة سے جنگ، جمع قرآن کامسئلہ اور محاصل عراق کے بارے میں مشاورتیں ٭ اصطلاحات اور الفاظ کا موزوں اور برمحل استعمال ہی زیادہ محتاط روش ہے۔ اجتہاد توکسی امر کی شرعی حیثیت کے تعین کے لئے ہوتا ہے جبکہ تدبیر یا مشاورت کسی امر کے جائز طریقوں میں سے کوئی موزوں طریقہ استعمال کرنے پر ہوتی ہے جیساکہ خلفاء رضی اللہ عنہم کی مشاورت کے بارے میں صحیح بخاری میں آتا ہے کہ وہ صرف جائز اُمور میں ہی اسے منعقد کیا کرتے:وکانت الأئمۃ بعد النبي صلی اللہ علیہ وسلم یَسْتَشِیْرُوْن الأمناء من أہل العلم في الأمور المُباحۃ لیأخذوا بأسہلہا۔ اوّ ل الذکر کی بنیاد شریعت کی رہنمائی ہوتی ہے جس کے اہل ماہرین شریعت ہیں جبکہ ثانی الذکر میں مشاورت ہی بنیادی عامل ہوتی ہے اور اس کے بعد امیر کے فیصلے سے کوئی بھی پہلو اختیار کیا جاسکتا ہے۔مثال کے طور پر جنگ کرنے کا طریقہ کار کیا ہو؟ لشکر کی ترتیب کیا ہو اور اسے کس مقام پر کھڑا کیا جائے ؟ ان میں یہ پہلو کہ کن کے خلاف جنگ کرنا جائز ہوجاتا ہے؟ تو اجتہاد پر موقوف ہے لیکن اس کے طریقہ کار میں تدبیری پہلو غالب ہے جو مشاورت کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ جنگ ِبدر میں پڑائو ڈالنے کے مسئلہ پر حُباب رضی اللہ عنہ بن منذر کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مکالمہ اس کی نمایاں مثا ل ہے۔ (مستدرک حاکم: ۵۸۰۱) ایسے ہی ٹریفک کے بارے میں بنایا جانے والے نظم اور اس سلسلے میں کئے جانے والے غور وفکر کو ’اجتہاد‘ سے تعبیرکرنا درست نہ ہوگا۔ شورائی اجتہاد میں دونوں پہلو بیک وقت جمع ہورہے ہیں۔ گویا عمل اجتہاد میں مسئلہ کے مختلف پہلوئوں پر شرعی دلائل کی نشاندہی تو مشاورت سے حاصل ہوسکتی ہے لیکن اس کے بعد نتیجہ کے حصول میں ہرمجتہد منفرد ہوتاہے۔ جن میں اتفاقِ رائے اتفاقاً تو ہوسکتاہے، لیکن اُنہیں اتفاقِ رائے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ مشاورت کا تعلق اگر شریعت کے نقطہ نظر کے بارے میں دلائل واستنباط کی نشاندہی سے ہو تو یہ مشاورت یا تبادلہ خیال پیش آمدہ مسئلہ پر اجتہاد میں معاونت کی ایک صورت ہے۔ انتظامی اور تدبیری اُمور میں مشاورت کا ایک نظام ہے جس میں امیر فیصلہ کرنے کے خصوصی اختیارات بھی استعمال کرتا ہے۔ دنیاوی اُمور میں امیر کو حاصل ان اختیارات کی تو شریعت میں گنجائش ملتی ہے لیکن دینی اُمور کی تعبیر میں امیر کے دیگر اہل علم پراس ترجیحی اختیار کی اسلام میں حمایت نہیں پائی جاتی۔