کتاب: محدث شمارہ 287 - صفحہ 5
”اس اہم نوعیت کے سیمینار میں اختلافی مسائل بھی زیر بحث آئے، نقد وجرح کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن کسی بھی مرحلے پر بدمزگی پیدا نہ ہوئی، نہ فکر و رائے کے اختلاف میں شدت کا اظہار ہوا۔“ اُنہوں نے منتظمین کے حسن انتظام کو سراہتے ہوئے لکھا : ”پوری غیر جانبداری سے، کسی مکتب ِفکر کے جذبات کو مجروح کئے بغیر ایسے سیمیناروں کا علم وتحقیق کے لئے انعقاد ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کا ایک قابل ستائش کردار ہے، اس علمی رویہ کو دیگر اداروں کے لئے بھی مشعل راہ ہونا چاہئے۔“(محدث، نومبر 1998ء : ص 59) سیمینار کے تین دنوں میں حاضرین کو ممتاز اہل علم کے علمی جواہر سے استفادہ کا خوب خوب موقع ملا، ان کے خطابات کا خلاصہ پیش کرنا تو شاید یہاں ممکن نہیں کیونکہ وہاں پیش کردہ ان کے خطابات بھی ان کے مقالوں کی تلخیص پر ہی مبنی تھے جس میں مقالہ کے اہم پیراگراف کو پڑھ کر سنایا گیا تھا۔ یہ مقالات کتابی صورت میں تمام خطاب کرنے والوں کو تقسیم کر دیے گئے تھے، یہاں ہم ان خطابات کے بعض حصوں پر ہی اکتفا کریں گے، علمی نوعیت کے استدلال کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لئے ان کی مکمل تحریریں ہی کارآمد ہوں گی۔ ماضی میں اجتماعی اجتہاد ماضی میں اجتماعی اجتہاد کے وجود کے بارے میں انڈیا سے تشریف لانے والے مشہور سکالر مولانا جلال الدین عمری نے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ فقہ ِاسلامی کی تاریخ میں یہ تصور ہمیں نہیں ملتا اور نہ ہی اس نام کی کسی اصطلاح کا وجود ماضی میں دکھائی دیتا ہے۔ اسلامی فقہ میں کہیں بھی یہ نہیں پتہ چلتا کہ فلاں رائے تو انفرادی اجتہاد ہے اور فلاں رائے اجتماعی اجتہاد کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہے۔ ایسے ہی اجتہاد سے قبل مشاورت کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں مروّجہ اُصولِ فقہ کوئی رہنمائی نہیں دیتے کہ اس کی ضرورت ہے یا نہیں اور اس کو انفرادی اجتہاد پر کس پہلو سے برتری حاصل ہے؟ مولانا عمری نے کہا کہ اس تاریخی حقیقت کے باوجود اگر مل جل کر اجتہادی عمل میں شرکت کرلی جائے تو اس میں بظاہر کوئی مضائقہ نظر نہیں آتا۔ البتہ سیمینار میں شریک کئی اہل علم نے دورِ نبوی میں بھی اس کے وجود کا دعویٰ کیا۔ اُنہوں نے دورِنبوی میں مختلف غزوات: بدر،اُحداوراحزاب کے سلسلے میں ہونے والے مشوروں کو