کتاب: محدث شمارہ 287 - صفحہ 27
یا فرقے نہ تو انہوں نے بنائے اور نہ ہی یہ ان کے زمانہ میں موجود تھے بلکہ یہ تو مخصوص حالات کے نتیجہ کے طور پر ان ائمہ کی بلا جواز اور جامد تقلید کے ذریعے چوتھی صدی ہجری میں معرضِ وجود میں آئے۔ لہٰذا ان مذاہب یا فرقوں کو خود ان کے زمانہ میں ثابت کرنا ناممکن ہے کجا یہ کہ بنی اُمیہ اور بنی عباس کے ادوارِ خلافت سے آگے بڑھ کر دور ِ خلافت راشدہ میں ان کا وجود ثابت کرنے کی جسارت کی جائے۔
پس جب ائمہ سلف یا ان کی فقہ …جو ان کے متوسلین نے بعد میں ترتیب دی ہے… اتھارٹی نہیں، حالانکہ یہ کتاب و سنت پر عبور رکھتے تھے تو پھر جدید دور کے سیاسی قائدین اور حکومت یا ان کے اجتہادات …جو اجتہاد کی ابجد سے بھی واقف نہیں، تاوقتیکہ کتاب و سنت کی ماہرانہ بصیرت حاصل کریں… کیونکر اتھارٹی قرار دیے جاسکتے ہیں؟
غور فرمائیے!عیسائیت جیسی سابقہ شریعت … جو اب تک حکومتوں کی سرپرستی میں علما کی کونسلوں کے ذریعے مدوّن کی جاتی رہی ہے… ان کے حلال و حرام کو بھی حتمی سمجھنا قرآن مجید نے خدائی اختیارات میں دخل اندازی قرار دیا ہے تو اب شریعت ِمحمدی سیاسی برزجمہروں یا حکومتوں کے ہاتھوں انجام پذیر ہوکر کیونکر اتھارٹی بنے گی اور اس کی کیا حیثیت ہوگی؟ … عیسائیت کی تدوین کے بارے میں اب تک بیس سے زیادہ کونسلوں نے جو کارنامہ سرانجام دیا ہے، وہ آپکے سامنے ہے۔ ان میں بعض کونسلیں ایسی تھیں کہ حکومت کی سرپرستی میں ان میں دو دو ہزار کے قریب علما شریک ہوتے رہے، بایں ہمہ اس پاپائیت کو قبول نہیں کیا جاسکتا، تو وضع شریعت یا تعبیر شریعت کے نام پرپارلیمنٹ یا حکومت کا ’حق سبحانی‘ کیونکر تسلیم کیا جاسکتا ہے؟17
تدوین (فقہ کی ترتیب ِنو) اور تقنین (دفعہ وار قانون سازی) کا فرق
جہاں تک کتاب وسنت کی بجائے جدید انداز پر دفعہ وار دستور وقانون کی شکل میں شریعت کی تشکیل نو کا مسئلہ ہے جسے اجتماعی اجتہاد بھی کہا جارہا ہے تو تَقنین شریعت کی یہ صورت کوئی پختہ اسلامی تصور نہیں ہے بلکہ یہ تصور مغرب سے متاثر جدید ذہن کی پیدوار ہے جو فرانس کی تقلید میں مسلمانوں میں درآمد ہوا ہے۔ ورنہ صحیح تصور یہ ہے کہ شریعت (کتاب اللہ) اور