کتاب: محدث شمارہ 287 - صفحہ 25
”ہم نے کتاب (بتدریج) نازل فرما کر اس میں ہر شے بہت وضاحت سے پیش کردی ہے۔“ دوسری جگہ اسی سورةمیں ارشاد ہوا : ﴿وَأَنزْلْنَا إلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ… الآية﴾12 ” ہم نے یہ ذکر آپ پر نازل فرمایا ہے تاکہ آپ اسے لوگوں کے سامنے بیان کریں۔“ پھر قرآن مجید ہی نے بتلایا کہ جس طرح اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، اسی طرح اس کے بیان (تعبیربصورت ِسنت وحدیث ) کی حفاظت بھی اللہ ربّ العزت کے ذمہ ہے : ﴿ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ﴾ 13 ”اس قرآن کا جمع کرنا او رپڑھنا پڑھانا ہمارے ذمہ ہے۔ ( نبی!) جب ہم قرآن پڑھیں تو آپ اس پڑھنے کی اتباع کریں۔ پھر اس کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے۔“ یوں کتاب اللہ کو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی (سنت وحدیث) میں پروکر ہمارے سامنے پیش کردیاگیا ہے، لہٰذا اسی کی پابندی کرکے ہم زندگی کے جملہ شعبوں میں راہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ گویا جب دستورِ حیات (قرآن مجید) بھی مل گیا اور اس کی تعبیر بھی سنت ِرسول کے ذریعہ متعین ہوچکی تو ہمارا کام اب صرف یہ ہے کہ اسی دستور کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر عمل پیرا ہوں اورفردو معاشرہ کی فلاح و نجات سے ہم کنار ہوں۔14 اجتہاد کا حق صرف علماء دین کو حاصل ہے؟ اندریں صورت اسلام کی پارلیمانی تعبیر یا پرائیویٹ تعبیر کی بحث ہی بے بنیاد اور بلا جواز ہے۔ حکومت ہو یا علما اور عوام ، سبھی کتاب وسنت (اسلامی دستور و تعبیر) کے پابند ہیں جو ان کی زندگی کے جملہ پہلووٴں کے لئے کامل و اکمل موجود و محفوظ ہیں۔ باقی رہا اجتہاد کا معاملہ تویہ عرض کیا جاچکا ہے کہ اجتہاد دراصل شرعی احکام ہی کی تلاش و اطلاق کا نام ہے، کوئی نئی شریعت وضع کرلینے کا نام نہیں۔لہٰذا اس سلسلہ میں ضرورتوں کے مطابق وہی لوگ رہنمائی دے سکتے ہیں جو کتاب و سنت کی زبان اور اس کے علوم کے ماہر اور ان کی بھرپور بصیرت رکھتے ہوں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مریض کا علاج ڈاکٹر کرتا ہے، اور عمارت و مشین انجینئر کے ہاتھوں تیار