کتاب: محدث شمارہ 287 - صفحہ 23
انہوں نے عبادات ومعاملات کے جملہ پہلووٴں پرعملی تفصیلات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ سیاست وحکومت کی غلط روشوں کا مردانہ وار مقابلہ بھی کیا ہے۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن ائمہ اربعہ سمیت معتدبہ ائمہ کی قربانیاں تاریخ کے اوراق میں ثبت ہوکر بقاے دوام کی حیثیت اختیار کرچکی ہیں۔ ٭ البتہ ائمہ کے زمانے اور موجودہ دور میں یہ فرق ضرور ہے کہ ان لوگوں نے سیاسی اُمور میں جو کچھ بھی کہا، شرعی نکات کی وضاحت کے لئے کہا کیونکہ اس دور میں زندگی ایک وحدت تھی۔ حتیٰ کہ تدبیری اور انتظامی اُمور بھی شرعی ہدایات کی روشنی میں انجام پاتے تھے، جبکہ دور ِ حاضر میں سیاست اور مذہب الگ الگ ہوگئے ہیں، لہٰذا اسلام کے نام سے سیاسی فلسفے بھگارنے کو ہی زندگی کے جامع فکر کی معراج سمجھا جانے لگا ہے۔ کیا ’اجتہاد‘ شریعت کے خلا پُر کرنے کا نام ہے ؟ اس بحث کو آگے بڑھانے سے قبل ایک اور اہم تصور کا نکھار بھی ضروری ہے کہ اسلام میں اجتہاد کا بنیادی فنکشن کیا ہے؟ اجتہاد کیا بذاتِ خود تشریع (شریعت سازی)ہے7 یا فقط شریعت کی تفہیم اور بدلتے حالات کے تقاضوں کے مطابق شریعت کے اطلاق یا وسعت8 کا نام ہے؟ اسلامی شریعت میں سیاست و حکومت کے تمام اُمور بھی شریعت کی نگرانی میں طے پاتے ہیں اس کے باوجود مقامِ حیرت ہے کہ بعض دانشور جسارت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ شریعت نے اسلامی حکومت کا کوئی مخصوص نظام نہیں دیا، لہٰذا احکامِ الٰہی کی غیر موجودگی میں یہ خلا اجتہاد سے پر کیا جائے گا۔ در حقیقت یہ لوگ اجتہاد کی تعریف ہی سے واقف نہیں ۔ اجتہاد کا کام شریعت کے خلا پر کرنا نہیں، بلکہ زندگی کے متنوع پیش آمدہ مسائل کے حل کے لئے شریعت کی وسعتوں کی تلاش اور انہیں احکامِ الٰہی کی حدود میں لانے کا نام ’اجتہاد‘ہے، تاکہ مسلمان مکمل طور پر اپنی زندگیاں منشا الٰہی کے مطابق بسر کرسکیں۔ اسلام کا اپنی طرز کا مکمل امتیازی دستور حیات ’کتاب و سنت ‘ہیں اور مذہب و سیاست کے جملہ اُمور بھی اسی دستور کی روشنی میں انجام پاتے ہیں۔ جبکہ جدید ریاستوں کے موجودہ دساتیر صرف ملکی سیاست تک محدود ہوتے ہیں اور انہیں فرد و معاشرہ کی غیر سیاسی زندگی سے براہ راست کوئی سروکار نہیں ہوتا۔