کتاب: محدث شمارہ 287 - صفحہ 22
کی تفصیل بیان فرمائی ہے اور طبری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ مفسرین نے ان واقعات کو مشرکین سے مناظرہ کی بجائے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنے غوروفکر کے ابتدائی مراحل قرار6 دیا ہے۔
اس کے برعکس علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ایسے خیالات کا اظہار کرنے والوں کا اشکال یہ ہے کہ وہ ان کے نظریات کو علامہ کی پختہ اور حتمی آرا ہی سمجھتے ہیں، حالانکہ برصغیر کے اس دور میں پاکستان جیسی مجوزہ اسلامی ریاست محض ایک تخیل تھا اور ایسے تخیل سے مفکر کا تعلق زیادہ تر رومانوی ہوتا ہے۔ وہ اپنے افکار و نظریات کو اپنی آخری اور حتمی/ عملی تجاویز کے طور پر پیش نہیں کرتا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ تشکیل ریاست کے بارے میں علامہ کی طرف سے ایسے فلسفیانہ مباحث میں شرکت کو علامہ کی ائمہ سلف پر برتری کی دلیل بنا لیا جائے ؟ بالخصوص اس لئے کہ علامہ نے جس دور میں آنکھ کھولی، یہ مذہب و سیاست کی ثنویت یا اسلام اور سیکولرزم کی فکری جنگ کا زمانہ تھا، جس میں کہیں مذہبی روایات کے تحفظ کے لئے جہاد ہورہا تھا تو کہیں سیاسی سطح پر اسلام کا نفاذ ہی وقت کی مسلم تحریکوں کا مطمح نظر بن رہا تھا۔ ان حالات میں فکری افراط و تفریط ایک لابدی امر تھا۔ لہٰذا آج ائمہ سلف کی نام لیوا بعض شخصیتوں کے طرزِ عمل کے حوالہ سے ، خود ائمہ پر یوں کیچڑ اُچھالنا کہ ان کی فقیہانہ مساعی ملوکیت کی تائید کے لئے تہیں، جبکہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اسلامی نشاةِ ثانیہ کے واحد حدی خواں تھے؛ کوئی پسندیدہ رویہ نہیں کھلا سکتا۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی شخص موجودہ مسلم تحریکوں کے قائدین پر یہ الزام تراشی شروع کردے کہ ان کی تمام تر جدید مساعی مسلمانوں میں سیکولر جمہوریت کو ترویج دینے کے لئے تھیں تو اسے مستحسن فعل قرار نہیں دیا جائے گا۔
ائمہ اسلاف کی خدمات مسلمہ ہیں!
دورِجدید میں اسلامی مملکت کے مختلف پہلووٴں پر خیال آرائی کیلئے ہمارے سامنے ایک وسیع میدان ہے۔ چنانچہ جمہوریت و آمریت کا تقابل کرتے ہوئے اسلامی خلافت کے موضوع کوبھی زیر ِبحث لایا جاسکتا ہے او را س کی تشکیل کے لئے تجاویز بھی پیش کی جاسکتی ہیں لیکن عصر ِ حاضر کے تناظر میں ائمہ سلف کی کردار کشی کرنا، نہ صرف بہت بڑی جسارت اور پرلے درجے کی ناقدر شناسی ہے بلکہ انتہائی ناانصافی بھی۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں کہ علمی سطح پر