کتاب: محدث شمارہ 287 - صفحہ 21
ہوتا بلکہ قانون وضع کرنے کا مقصد امکانی صورتوں کی احاطہ گری ہوتاہے جو تدبیر اور انتظامی اُمور کو منضبط کرنے کا کام ہے یعنی یہ ضابطہ بندی اجتہاد کے دائرہ سے خارج شے ہے، گویا فنی طور پر بھی فقہ کی تشکیل ِ نو اور شریعت کی تَقنين(قانون سازی) دو مختلف امر ہیں۔ بلا شبہ شرع میں اضافہ و تبدیلی کی گنجائش خلیفہ یا امام کو بھی نہیں ہے۔ اس طرح انسانوں کو انسانوں کی غلامی میں نہیں دیا جاسکتا۔ 5
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی آرا حتمی نہیں بلکہ فکر و نظر کے ارتقائی مراحل ہیں!
اس سلسلے میں بحث شروع کرنے سے قبل یہ امر واضح کرنا ضروری ہے کہ تحریک ِ پاکستان کے حوالے سے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا فکری مقام بلاشبہ مسلم ہے اور اس تناظر میں فکر ِاقبال کی اپنی جگہ اہمیت بھی بجا ہے لیکن علامہ رحمۃ اللہ علیہ کی اس حیثیت کا یہ لازمہ نہیں کہ انہیں ائمہ سلف کے مقابل لاکھڑا کیا جائے اور پھر اس تقابل کے نتیجے میں ائمہ سلف کو تو دورِ ملوکیت کا پروردہ جبکہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو ’اسلامی نشاةِ ثانیہ‘ کا ’حدی خواں‘ قرار دیا جائے جیساکہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے بعض مداحوں کا شیوہ ہے۔ خصوصاً اس لئے بھی کہ ائمہ سلف اور اقبال کے میدان ہائے کار الگ الگ تھے اور انہیں پیش آنے والے حالات میں بھی باہمی مماثلت موجود نہیں۔
جو لوگ اسلامی ریاست کی فکری تشکیل میں علامہ رحمۃ اللہ علیہ کے نظریات کو دلیل بناکر انہیں مجتہد ِ مستقل کا مقام دینا چاہتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے یہ نظریات ان کی ٹھوس آرا کی بجائے ان کے ارتقائی نظریات تھے۔ چنانچہ کائناتِ ارضی کے مختلف حصوں میں رونما ہونے والے واقعات پر غوروفکر کے نتیجے میں اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ان نظریات کو، جو فکر ِ اقبال کے حاملین کو ان کے عقائد نظر آتے ہیں، منزل تک پہنچنے سے قبل اس راہ کی بھول بھلیوں یا درمیانی مراحل کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔
عقیدہ کی بجائے نظریاتی ارتقا کی ایک قرآنی مثال
بطورِ مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھئے کہ’روٴیت ملکوت ِ سماوی و ارضی‘ کے سلسلہ میں آپ ستارے سے لے کر چاند اور پھر سورج تک کے لئے اپنے خاص عندیے کا اظہار فرماتے رہے لیکن بالآخر آپ علیہ السلام تائید ِایزدی سے اصل حقیقت کی تہ تک پہنچ گئے۔ قرآن مجید نے ان حالات