کتاب: محدث شمارہ 287 - صفحہ 20
دوسرا نظریہ
قرآن وسنت میں منصوص مسائل کے علاوہ ائمہ سلف نے خلفاے راشدین/ائمہ اہل بیت کے طرزِعمل سے ماخوذ مکمل نظامِ حیات پیش کردیا ہے۔ اب چونکہ مستقل اجتہاد کی اہلیت باقی نہیں رہی، اس لئے انہی مدوّن کتب ِ فقہ سے احکام کا استخراج کرکے کام چلانا چاہئے جو شیعہ / سنی مکاتب ِ فکر کے ہاں مسلمہ ہیں۔ ریاست کا مسلک اس فقہ کے مطابق ہو جس کے پیروکاروں کی ملک میں اکثریت ہو۔ اس معاملہ میں برتری علماے فقہ کو حاصل ہے جبکہ اقلیتی فرقوں کو صرف پرسنل لاز میں آزادی دی جائے۔ 2
تیسرا نظریہ
عقیدہ، عبادات اور عائلی مسائل میں ہر فرقہ اپنی اپنی فقہ پرعمل پیرا ہونے کا اختیار رکھتا ہے البتہ معاشرت، معیشت ، اور سیاست سے متعلقہ اُمور اسلامی اُصولوں کی روشنی میں پارلیمنٹ طے کرے۔ اس سلسلے میں ایسا رویہ اختیار کیا جائے کہ پارلیمنٹ میں علما کو بھی بھرپور نمائندگی حاصل ہو تاکہ بیک وقت مہارت ِ علمی کے ساتھ ساتھ عوام کا اعتماد بھی حاصل ہوجائے۔ چنانچہ اس کے لئے اسمبلی کی رکنیت کی شرائط اور بعض دیگر طریقوں کی تجاویز بھی پیش کی جاتی ہیں۔3
چوتھا نظریہ
شریعت قرآن و سنت کی شکل میں ہمارے پاس مدوّن صورت میں محفوظ ہے۔ قرآن دستور ِ حیات ہے تو سنت ِرسول اس کی حتمی اور ابدی تعبیر4اجتہاد انفرادی ہو یا اجتماعی، شریعت کا حصہ نہیں بلکہ پیش آمدہ مسائل کو منشاء الٰہی کے تابع انجام دینے اور شرع کی حدود کے اندر رکھنے کا طریق کار ہے۔ فتوے اور قضا میں اجتہاد کی اہمیت شریعت کی وسعتوں کی دلیل ہے۔ اس بارے میں مجتہد کی غلطی پر بھی اسے مخلصانہ اجتہاد کا اجرملے گا لیکن شریعت واحدہ ہونے کے باوجود فقہ واجتہاد مختلف اور متعدد بھی ہوسکتے ہیں۔اسی طرح مسائل کی نوعیت کی تبدیلی کی بنا پر شریعت کے دائمی ہونے کے باوجود علماء کے اجتہاد و فتویٰ کا تغیر ممکن ہے۔ پارلیمنٹ کے فیصلوں کا اجتہاد سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ ان کا تعلق اصلاً شریعت کے تعبیرو اطلاق سے نہیں