کتاب: محدث شمارہ 287 - صفحہ 19
متقاضی ہے۔ ماہنامہ ’محدث‘ اور دیگر جرائد ومجلات میں بعض پہلووں پر بکھری ہوئی کچھ تحریریں ضرور شائع ہوئی ہیں، لیکن بالخصوص خلیجی ممالک کا نقطہ نظر ہمارے علمی حلقوں میں بھی متعارف نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس نقطہ نظر کے حق اور مخالفت میں عربی زبان میں تو کافی مواد ملتاہے لیکن اُردو میں اس پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ بہرصورت ما لا يدرك كله لا يترك كله کے مصداق زیر نظر مقالہ ہدیہٴ قارئین ہے۔ (حافظ حسن مدنی)
بسم اللّٰه الرحمن الرحيم
’پارلیمنٹ کا اجتہاد اور تعبیر ِشریعت‘ کاموضوع ان ممالک میں بڑی اہمیت کا حامل ہے جہاں نفاذِ شریعت اور اسلام کو حکومتی سطح پر اپنانے کی کاوشیں ہوتی رہتی ہیں۔اس سلسلے میں جہاں ترکی کے مصطفی کمال پاشا کے تصورات کو زیر بحث لایا جاسکتا ہے، وہاں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا نکتہ نظر بھی عموماً اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے وردِ زبان رہتا ہے۔اس سلسلے میں یہ بحث بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اسلام میں اجتماعی اجتہاد کی کیا حیثیت ہے؟ ایسے ہی کسی مجتہد کا اجتہاد کیا دوسروں کے لئے بھی حجت ہوتا ہے؟حکمران شریعت کی تعبیر کے بارے میں کیا اختیارات رکھتے ہیں یا ان کا دائرۂ عمل صرف شریعت کے نفاذ کی تدبیر اور انتظامی اُمور تک محدود ہے۔ ’پارلیمانی اجتہاد ‘ کے بارے میں مختلف نکتہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں :
پہلا نظریہ
شریعت کی روشنی میں بالخصوص سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کی روحِ عصر کے مطابق تعبیر ِنو ضروری ہے۔ موجودہ ترقی یافتہ دور کے بدلتے تقاضے اجتہاد ِ نو کی دعوت دیتے ہیں اور موجودہ فرقہ وارانہ کشمکش میں پارلیمنٹ کا ہی ایسا اجتہاد معتبر ہوسکتا ہے۔ مصطفی کمال پاشا کے جدید ترکی کی ’گرینڈ نیشنل اسمبلی‘ نے بھی قرار دیا تھا کہ خلافت و امامت کو فرد ِواحد کے بجائے کئی افراد پر مشتمل ادارے یا منتخب اسمبلی کے سپرد کیا جاسکتا ہے۔ جدید دورمیں یہی اجماعِ اُمت ہے۔ پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لئے ائمہ سلف رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کی بجائے پارلیمنٹ کے سرکاری فیصلوں کی پابندی ہونی چاہئے۔1