کتاب: محدث شمارہ 287 - صفحہ 18
اس سلسلے میں مصر کے بعض جدید علما، جو اگرچہ عہد ِنبوت سے لے کر دور حاضر تک عالم اسلام میں شریعت کو دفعہ وار قانون کی شکل دیے بغیر کتاب وسنت کی عمل داری کا اعتراف تو کرتے ہیں لیکن تَقنِين شريعت کو بھی دورِ حاضر کی ایک ضرورت سمجھتے ہیں، اُنہوں نے سعودی مملکت کے بانی شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود کے ساتھ بالمشافہہ ملاقاتوں کے علاوہ اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعے تَقنِين شريعت کو اپنا نے کے لئے سرگرم کوششیں بھی کیں لیکن خلیجی حکومتوں میں اُن کے نظریہ کو پذیرائی نہ مل سکی، البتہ بہت سے جدید موسوعاتِ فقہية ضرور تیار ہوگئے جن کی افادیت نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ پاکستانی اعلیٰ عدلیہ کی کئی ممتاز شخصیتیں سعودی عرب اور پاکستان میں نفاذِ شریعت کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچیں کہ پاکستان کو بھی نفاذ شریعت کے سلسلے میں خلیجی ممالک کا انداز ہی اپنانا چاہئے۔ جن میں سے جسٹس بدیع الزمان کیکاؤس مرحوم کے بعد وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس گل محمدخاں مرحوم اس نظریہ کی اہمیت اور اس کے بعض امتیازی پہلوؤں پر انگریزی او راُردو جرائد میں لکھتے بھی رہے ہیں۔ مذکورہ بالا چاروں نظریات کا جائزہ لینے سے پہلے بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا کتاب وسنت کی تدوین جو فقہ ِاسلامی کے وسیع ورثہ کے ساتھ ہمارے ہاں موجود ہے، کے ذریعے پاکستان میں سعودی عرب وغیرہ کی طرح شریعت کی عمل داری زیادہ کامیاب ہوگی یا تعبیر شریعت کے لئے فقہ کی دفعہ وار قانون سازی زیادہ موزوں ہے ؟ پاکستان کی سپریم کورٹ کا شریعت بنچ اعلیٰ آئینی عدالت کی حیثیت سے 1986ء میں دیوانی اور 1991ء میں فوجداری؛ ہر دو سطح پرکتاب وسنت کی تقنين کئے بغیر نہ صرف شریعت کے عملاً نفاذ کا فیصلہ کرچکا ہے بلکہ کئی دفعہ متعدد دیوانی اور فوجداری قوانین بروقت نئی قانون سازی مکمل نہ ہونے کی بنا پر کالعدم بھی رہے حتیٰ کہ مروّ جہ قصاص و دیت آرڈیننس سپریم کورٹ سے مزید مہلت نہ ملنے کی بنا پر ہی حکومت کو موجودہ ناقص صورت میں نافذ کرنا پڑا۔ چونکہ مذکورہ بالا نظریات کے متعدد پہلو تفصیلی بحثوں کے محتاج ہیں، اس لئے زیر نظر مقالہ میں ان پہلووں پر صرف اشارات ہی پر اکتفا کیا گیا ہے کیونکہ ہر بحث ایک مستقل مقالے کی