کتاب: محدث شمارہ 287 - صفحہ 17
مقالہ برائے سیمینار ’اجتماعی اجتہاد‘ حافظ عبد الرحمن مدنی تعبیر شریعت اور پارلیمنٹ پاکستان میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور پارلیمانی اجتہاد کے بارے میں اکثر لوگوں کی تحریریں نظرسے گزرتی رہتی ہیں جن میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ پاکستان میں تعبیر شریعت کے لئے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیا جائے یا اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے مروّ جہ قوانین کی تصحیح کی جائے۔ حالانکہ دنیائے اسلام میں شریعت کا کامیاب جزوی یا کلی نفاذ دیگر طریقوں سے بھی ہوا ہے۔ زیر نظر مقالہ میں محترم مدیر اعلیٰ محدث نے نفاذِ شریعت میں اُمت ِمحمدیہ کے چار مشہور نظریات پر تبصرہ پیش کیا ہے اور اسی سے متعلقہ مختلف پہلووں تک اپنی گفتگو کو محدود رکھا ہے۔ اُنہوں نے سب سے پہلے مفکر ِپاکستان علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے نظریہ کو ان کی متوازن رائے کا انتخاب کرکے پیش کیا ہے کیونکہ پاکستان کے بہت سے دانشور ان کے نظریہ اجتہاد کو افراط و تفریط کی صورت میں پیش کرکے نفاذِ شریعت کے بارے میں من مانی تاویلیں کرتے رہتے ہیں۔ اس مقالہ میں پیش کردہ دوسرا نظریہ اس اعتبار سے بڑا اہم ہے کہ ماضی قریب میں جنوبی ایشیا کی دو اہم حکومتوں نے اسے شریعت کے نفاذ کے حوالے سے اختیار کیا۔ ایران کا انقلابِ جدید اور افغانستان میں طالبان کی حکومت اسی کی بازگشت ہے۔ تیسرا نظریہ ہمارے ملک کے کئی آزاد خیال اہل علم اور دینی سیاسی جماعتوں کے زعما کی طرف سے زندگی کے پرائیویٹ پہلو کو چھوڑ کر پبلک لاء کی شکل میں نافذ کرنے کے لئے تجویز کیا جاتا رہا ہے۔جس کی رو سے پارلیمنٹ کو شریعت کا پبلک لاء وضع کرنے کا اختیار ہے اور ہرفرقہ کو پرسنل لاء کی آزادی ر ہنی چاہئے۔ چوتھا نظریہ اُمت ِمسلمہ کے اندر ابتدا ہی سے چلا آرہا ہے۔ اور عالم اسلام کے اہم حصہ سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک کے اندر شریعت کی عمل داری کی حد تک عرصہ سے رائج ہے۔