کتاب: محدث شمارہ 287 - صفحہ 16
کرنے کا کوئی نہ کوئی ذریعہ ضرورہونا چاہئے۔ امریکہ میں اس مقصد کے لئے ’سائنٹفک ریسرچ‘ کے نام سے ایک ادارہ سرگرم ہے۔ اس ادارے میں مختلف علوم پر ہونے والی تحقیق کے بارے میں تمامتر معلومات کو جمع کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور سائنس کی ایک شاخ علم کیمیا کے بارے میں 1907ء کے بعد سے جس قدر تحقیقی کام ہوا ہے، اس کو محفوظ کرنے کا یہاں باقاعدہ ایک نظم موجود ہے۔ کیمیامیں ہونے والی تمامتر تحقیق کا خلاصہ یہاں ہر ہفتہ درج کیا جاتاہے اور اس کو انٹرنیٹ ویب سائٹس پر اَپ ڈیٹ بھی کر دیا جاتا ہے۔ پھر کیمیا کے میدان میں مزید تحقیق کا آغاز وہاں سے کیا جاتاہے جہاں دنیا بھر کے سائنسدان اب تک پہنچ چکے ہیں۔ اس سے، پہلے سے موجود کام میں تکرار کا عنصر کم سے کم ہوجاتاہے۔اس امریکی ادارے کا بنیادی مقصد یوں تو سائنسز کے موضوع پر معلومات کی فراہمی نہیں بلکہ دراصل یہ اپنے اپنے موضوع پر ہونے والے تحقیقی کام اورتحقیقی مقالات کی درجہ بندی کاکام کرتا ہے۔ پہلے تحقیقی رسائل کو وہاں رجسٹر کیا جاتا اور ان میں شائع ہونیوالے مقالات کے معیار کی جانچ کے بعد اس کی علمی حیثیت کو ایک نمبر کے ذریعے متعین کیا جاتا ہے مقالات لکھنے والے اشخاص کی کارکردگی اور اس فن میں ان کے مقام کا اندازہ انہی نمبروں کے ذریعے ہوتا ہے۔ لیکن اس سے معلومات کی فر اہمی کا وسیع تر مقصد بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف اسلامی علوم کا یہ حال ہے کہ ہر موضوع پر ہونے والی تحقیق کا آغاز بالکل ابتدا سے ہوتاہے اوراس دو رمیں اسلام پر ہونے والی تحقیق کا بیشتر حصہ ایسا ہے جن کے اکثر اجزا پر کام پہلے سے ہوچکتا ہے لیکن اس کی معلومات کہیں دستیاب نہیں ہوتیں۔ اسلامی موضوعات پر ہوچکنے والے کام سے استفادہ کرتے ہوئے مزید اُمور پر تحقیق کے لئیگذشتہ معلومات سے استفادہ کرنا بھی گویا ’اجتماعیت‘ کا تصور اپنے اندر رکھتاہے جہاں ایک فرد اپنے علمی رسوخ اور معلومات پر اعتماد کی بجائے اجتماعی انسانی کاوشوں کو پیش نظر رکھ کر ایک مسئلے کا حل دریافت کرسکتا ہے۔ اگر وہ چند اہل علم افراد کو اکٹھا کرنے کی قدرت نہیں رکھتا یا ہماری لائبریریاں اسے متعلقہ موضوع پر مواد یکجا فراہم نہیں کرسکتیں تو کم ازکم اسلامی معلومات کے مرکز سے استفادہ کرتے ہوے وہ کاغذ پر چند اہل علم کی آرا کو ایک جگہ ملاحظہ کرسکتا ہے۔ اس کی ضرورت روز افزوں ہے لیکن یہ کام بڑے مالی وسائل کے بغیر ممکن نہیں !!