کتاب: محدث شمارہ 287 - صفحہ 14
دوسرے مسلک میں اس کے لئے کشائش و آسانی میسر رہتی ہے۔ “ (مقالات : ص 305) اسی سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار مختلف مقررین کی طرف سے ہوتا رہا جس کا حاصل یہ ہے کہ عصری مسائل سے آگاہی رکھنے والے اہل علم فقہی حدبندیوں میں مقید ہوکر ان مسائل کا حل کرنے کے بجائے اب وسیع تر اسلامی فقہی ذخیرے سے آزادانہ استفادے کا موقف اپنا رہے ہیں۔ اور اجتماعی اجتہاد کا تصور متعارف کرانے کی و جہ بھی مختلف نقطہ ہائے نظر سے استفادہ کرنے کی ضرورت کا ایک اعتراف اوراظہار ہے۔ یہ امر خوش آئندہے کہ فقہی حدبندیوں سے نکل کر اسلام کو درپیش چیلنج کا جوا ب مشترکہ علمی سرمائے سے دیا جائے۔ جن اہل علم کو زمانے کے بدلتے تقاضوں سے زیادہ واسطہ پیش نہیں آتا بلکہ مسلم معاشرے کے روایتی مسائل سے ہی انہیں پالا پڑتا رہتاہے، وہ ابھی تو اس ضرورت کا ادراک نہیں کرتے لیکن جوں ہی اُنہیں جدید معاشرے کے مسائل سے سابقہ پیش آئے گا، وہ بھی اپنے نقطہ نظر پر نظرثانی کرنے پر آمادہ ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خود مختلف گروہوں میں بٹے رہنے کی بجائے اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کی خدمت کی توفیق بخشے۔ آمین! ایک اہم تجویر سیمینار کے دوسرے روز چوتھی نشست میں ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے ڈاکٹر عصمت اللہ نے کویت کی ایک تنظیم کی گراں قدر خدمات پر روشنی ڈالی جس سے اکثر حاضرین واقف نہ تھے۔ ان معلومات کے مطابق طبی فقہی اُمور پر کام کرنے والی کویت کی المنظمة العالمیۃ للعلوم الطبیۃ 25برس سے اپنے موضوع پر ممتاز نوعیت کا کام کر چکی ہے اور بعض موضوعات پر تو ایک درجن سے زائد سیمیناربھی منعقد کرچکی ہے۔ ان میں سے بہت سے موضوعات ایسے ہیں جن کے بارے میں اسلامی معاشرہ رہنمائی کا شدید محتاج ہے۔ یہ تحقیقات انٹرنیٹ پر اسلامی دنیا کے استفادہ کے لئے کھلی پڑی ہوئی ہیں اورہر کوئی انہیں اپنے کمپیوٹر میں اُتار سکتا ہے۔ ان تحقیقات پر مشتمل متعدد کتب بھی چھپ چکی ہیں لیکن افسوس کہ اسلامی دنیا کے نامور اہل علم کو بھی اس ادارے کے نام او رکام سے آگاہی نہیں۔ جناب ڈاکٹر عصمت اللہ کے ان معلومات پر مبنی خطاب کو بے حد سراہا گیا اور اس کے بعد مولانا جلال الدین عمری نے تبصرہ کرتے ہوئے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ طبی موضوعات