کتاب: محدث شمارہ 287 - صفحہ 12
صفحہ 84پر آپ مزید لکھتے ہیں :
”جو شخص کتاب وسنت پر عمل کرتا ہے، وہ دین پر عمل کرتا ہے۔ کتاب وسنت سے ہٹ کر کسی مسلک کواللہ تعالیٰ نے اتباع اور اطاعت کے لئے مقرر نہیں فرمایا۔ اللہ کی طرف سے اطاعت کے لئے نامزد اور معین اللہ کے نبی اور وہ دین ہے جو کتاب وسنت کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ قرآن وسنت نے اولی الامر فقہا کی اطاعت کو بھی لازم کیا ہے ، لیکن وہ اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ کتاب وسنت کے تابع ہو، اس سے متعارض یا متصادم نہ ہو۔ اگر کتاب وسنت سے متعارض ہو تو پھر فقہا کی نہیں بلکہ قرآن وسنت کی ہی اطاعت کی جائے گی۔“
٭ ایسی ہی بات حافظ صلاح الدین یوسف نے اسی سیمینار میں پیش کردہ اپنے مقالہ میں کہی:
”اجتہادی کمیٹی کو فقہی مسلک سے بالا ہونا چاہئے اور کسی بھی فقہی مسلک کی بالا دستی اس پر نہیں ہونی چاہئے، یہ بالکل صحیح ہے“ ( مقالاتِ سیمینار: ص 166)
٭ مصفی اور عقد الجيد سے شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے اقتباس پیش کرنے کے بعد آپ لکھتے ہیں:
”فقہانے اپنے حالات اور عرف کے مطابق اجتہاد کیا اور شرعی احکام مستنبط کئے۔ اب حالات کے تقاضے اور ان کی نوعیتیں مختلف ہیں۔ عرف بدل چکے ہیں اور نئی تہذیب کی بوقلمونیوں نے بہت سی نئی مشکلات اورپیچیدگیاں پیدا کردی ہیں۔ ان حالات میں گذشتہ صدیوں کے فقہا کے اجتہاد ی احکام کو من وعن نافذ کرنے پر اصرار معقول طریقہ نہیں ہوگا۔ نہ اکثریت واقلیت کا راگ الاپنا مناسب ہوگا۔ اصل چیز قرآن وحدیث کی برتری اور عوام کی سہولت ہے۔ اس نقطہ نظر کے بعد کسی بھی فقہ کو بنیاد بنا لیا جائے لیکن دیگر فقہوں سے بھی استفادہ کیا جائے اور جو فقہی مسئلہ موجودہ زمانے کے مقتضیات سے زیادہ ہم آہنگ او رارفق بالناس ہو ، اسے اپنا لیا جائے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ مسئلہ فقہ حنفی کا ہو یا فقہ شافعی کا، فقہ مالکی کا ہویا فقہ حنبلی کا۔اس طریقے اس تقلیدی جمود ، حزبی تعصب اور گروہ بندی کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی جس کو اسلامی نظام کے نفاذ میں رکاوٹ باور کرایا جاتا ہے اور عصری مسائل کاحل بھی سہل ترہوجائے گا۔“ (مقالاتِ سیمینار:ص 168)
٭ قاہرہ کے مجمع البحوث الاسلامي کا تعارف کراتے ہوئے جناب ڈاکٹر تاج الدین ازہری نے شیخ الازہرکے اس تحفظ کا سیمینار میں بطورِ خاص ذکر کیا ، آ پ لکھتے ہیں :
”شیخ الازہر نے اپنے ماتحت مفتیان کو سوالات بھیجنا شروع کردیے۔ان میں سے ہرایک اپنے مسلک کا لحاظ کرتے ہوئے جواب دے دیتا جو اگر چہ علمی طور پر تو درست ہوتا مگر ہمیشہ