کتاب: محدث شمارہ 287 - صفحہ 11
ہے۔ اس اصطلاح سے ہماری مراد یہ ہے کہ اب یہ رجحان روز بروز تقویت پکڑتا جارہا ہے کہ تمام فقہی مذاہب کو اور تمام فقہاے اسلام کے فقہی ذخیرے اور ورثے کو مشترکہ فکری اور علمی ذخیر ہ قرار دیا جائے۔اور اُمت ِمسلمہ کی مشترکہ کاوش اور مشترکہ ثروت سمجھ کر اس سے استفادہ کیا جائے۔ آج بہت تیزی سے ایسی فقہ وجود میں آرہی ہے جو فقہ حنبلی، حنفی یا شافعی کے نام سے موسوم نہیں کی جاسکتی بلکہ اس کوصر ف ’فقہ اسلامی‘ کے نام سے ہی موسوم کیا جاسکتاہے۔ آئندہ پچاس سالوں میں یہ کاسمو پولیٹن فقہ ( اس کو جو بھی عنوان دیا جائے) پوری دنیاے اسلام کو اپنے اثر میں لے لے گی اور مدارسِ فقہ یا مکاتب ِفقہ کی اہمیت بڑی حد تک تاریخی ہو کر رہ جائے گی۔ علیٰ سبیل المثال اسلامی بینکنگ یا ایسے ہی دوسرے موضوعات پر جو اَدب یا لٹریچر سامنے آیاہے اور تیزی کے ساتھ آرہا ہے، اس کو حنفی بینکنگ، شافعی بینکنگ یا حنبلی بینکنگ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس میں حنفی، شافعی،مالکی اور حنبلی فقہا کے اجتہادات اور فرمودات سے یکساں استفادہ کیا گیا ہے۔“ (عصر حاضر میں اجتہاد اور اس کی قابل عمل صورتیں ص 2،3) جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی جیسی فاضل شخصیت سے ایسے جذبات کا اظہار ایک خوش آئند امر ہے، یہی و جہ ہے کہ آپ کے خطا ب کے خاتمے پر حافظ صلاح الدین یوسف نے ان خیالات کو پیش کرنے پر آپ کو مبارک باد دی اور آپ کے اَفکار کی تحسین فرمائی۔ ٭ یہی بات ’اجتماعی اجتہاد کے اسالیب‘ پرروشنی ڈالتے ہوئے بہاولپور یونیورسٹی کے شعبہٴ علومِ اسلامیہ کے پروفیسر شبیر احمد جامعی نے سیمینار میں بڑے موٴثر انداز میں کہی۔ آپ لکھتے ہیں : ”اس سلسلہ میں اہل السنت والجماعت کے تمام فرقوں میں روا داری کی اسپرٹ پید ا ہونا بہت ضروری ہے۔ لوگ حنفی اور اہل حدیث، شافعی او رحنبلی کی اصطلاحات میں بات کرنا چھوڑ دیں، فقہ خواہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ہو یا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ہو یا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی، سب ہماری اپنی فقہیں ہیں۔ یہ سب ائمہ بھی ہمارے مشترکہ امام ہیں۔ ان میں سے کسی کے خلاف یا کسی کے حق میں بے جا تعصب میں ہمیں مبتلانہیں ہونا چاہئے۔ صحیح اُصول یہ ہے کہ مختلف مسائل میں جس کا اجتہاد بھی قرآن وسنت کے زیادہ موافق اور حالات ومصالح سے زیادہ ہم آہنگ نظر آئے،اسے اختیار کرلیں۔ ہمیں تاکید بھی اسی چیز کی ہے۔ اجتہادی مسائل میں اسلام نے ہمیں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ یا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی یا دیگر ائمہ رحمۃ اللہ علیہم کی فقہ کی پیروی کی ہدایت نہیں کی۔ بلکہ اسی اجتہاد کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے جو کتاب وسنت کے زیادہ موافق اور قریب ترین ہو۔“ (مقالاتِ سیمیناربر اجتماعی اجتہاد: ص 75،76)