کتاب: محدث شمارہ 287 - صفحہ 10
ایسے موضوعات کے سامعین بھی معقول علمی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ پیش نظر سیمینار میں اس ضرورت کی جزوی تکمیل کے لئے روزانہ توسیعی خطابات کا تصور تو موجود تھا لیکن اس پر بوجوہ درست عمل نہ ہوسکا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ دن بھر میں ہونے والے مقالات میں تشنہ پہلووں کی وضاحت وہاں کی جاتی، ایسے ہی مقالہ پیش کرنے والے کو بھی وضاحت کا موقع ملتا لیکن اس کے بجائے نئے سرے سے کچھ مزید پہلووں پر بحث کھول دینے سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔ صرف قرآن وحدیث کی اتباع اور فقہی آرا سے آزادانہ استفادہ دینی مدارس کی فضا سے باہر جو اہل علم اسلامی علوم کی خدمت کررہے ہیں، ان میں یہ احساس روز بروز پختہ ہوتا جارہا ہے کہ مختلف فقہی مسالک میں بُعد کی لکیریں کھینچ کر اسلام کو درپیش چیلنجز کا سامنا کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ اس لئے یہ سیمینار جس میں زیادہ تر نمائندگی مدارس سے باہر عصری جامعات سے وابستہ اہل علم کی تھی، میں یہ خیال بہ تکرارپیش کیا گیا ہے کہ یہ دور ہم سے فقہی دائروں سے بالا تر ہوکراسلامی تعلیمات کی بہتر تفہیم کا تقاضا کرتا ہے۔ ٭ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی نے پہلے روز اپنے توسیعی خطاب میں فرمایا کہ ”کاش ہم اس دو رمیں واپس لوٹ سکیں جو اسلام کی ابتدائی چار صدیوں کا دور ہے۔ ان ابتدائی چار صدیوں میں جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین رحمۃ اللہ علیہ اور ائمہ اسلاف رحمۃ اللہ علیہ فقہی حدبندیوں سے آزاد ہوکر اسلام کو سمجھنے سمجھانے کی کوشش کرتے تھے، یہی رجحان اسلام کی وسعتوں سے ہمیں بہتر مستفید ہونے کا موقعہ فراہم کرتاہے۔“ واضح رہے کہ ابتدائی چار صدیوں کے بعد بقول شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اُمت ِمسلمہ تقلید اور مختلف فقہی مذاہب میں بٹ گئی تھی اور ہرشخص کا تعارف ایک مخصوص فقہ کے حوالے سے کیا جانے لگا تھا۔ لیکن اب نئے دور میں یہ رجحان آہستہ آہستہ تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس رجحان کی نشاندہی کے لئے جناب محمود غازی نے اپنے خطاب میں ایک نئی اصطلاح متعارف کرائی : ”آج دنیائے اسلام ایک نئی فقہ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اگر کوئی نئی اصطلاح استعمال کرنے کی اجازت دی جائے تو میں عرض کروں گا کہ ایک ’کاسموپولیٹن فقہ‘ وجود میں آرہی